خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کی معزولی

پیر 8 نومبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے تختِ خلافت پر بیٹھتے ہی خالد بن ولید کو معزول کر دیا تھا ۔ لیکن اس بات کو سمجھنے میں لوگوں سے بہت غلطی ہوئی ہے ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے شروع عہدِ خلافت میں خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو حقیقی طور پر معزول نہیں کیا تھا ۔ بلکہ اُن کا درجہ کسی حد تک کم کیا تھا ۔

پہلے خالد بن ولید سپہ سالارِ اعظم تھے فاروقِ اعظم نے اُن کو نائب سپہ سالارِ اعظم بنا دیا تھا ۔ اس ایک درجہ کے ٹوٹنے سے اُن کی ذمہ داریوں میں کوئی نمایاں فرق نہ آیا تھا ۔ صرف اس بات کی روک تھام ہو گئی تھی کہ وہ آزادانہ طور پر مسلمانوں کی جمعیت کو کسی خطرہ کے مقام میں نہیں لے جا سکتے تھے ۔ اور حضرت ابو عبیدہ کی رضا مندی اور اجازت ان کو حاصل کرنی پڑتی تھی ۔

(جاری ہے)


خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کی معزولی کا اصل واقعہ سنہ ۱۷ھ کے آخری مہینوں میں ہوا ۔ اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ہر سردار فوج ، ہر عامل ، ہر حصہ فوج اور ہر شہر کے حال سے باخبر رہتے تھے ۔ آپ کے پرچہ نویس ہر فوج اور ہر شہر میں موجود ہوتے تھے اور بِلا کم و کاست ضروری حالات سے خلیفہ وقت کو آگاہ رکھتے تھے ۔

حالانکہ ہر ایک عامل اور ہر ایک سردار فوج خود بھی اپنے حالات کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو اُن کے پرچہ نویس نے اطلاع دی کہ خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ جو صوبہ جزیرہ کی فتح سے ابھی واپس ملک شام میں آۓ ہیں اپنے ساتھ بے حد مال و دولت لاۓ ہیں ۔ اور انھوں نے اپنی مدح کے صِلہ میں اشعث بن قیس شاعر کو دس ہزار درہم دیئے ہیں ۔


فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو خط لکھا کہ خالد سے سر مجلس دریافت کیا جاۓ کہ آپ نے اشعث کو انعام اپنی گرہ سے دیا ہے یا بیت المال سے ۔ اگر اپنی گرہ سے دیا ہے تو اسراف ہے اور بیت المال سے دیا ہے تو خیانت ۔ دونوں صورتوں میں معزولی کے قابل ہیں ۔ قاصد سے فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر خالد بن ولید اپنی غلطی کا اقرار کریں تو اُن سے درگزر کی جاۓ ۔

چنانچہ وہ مجمع عام میں بلاۓ گئے ۔ قاصد نے اُن سے پوچھا کہ یہ انعام آپ نے کہاں سے دیا ؟ خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ اشعث کو میں نے اپنے مال سے انعام دیا ۔ بیت المال سے نہیں دیا ۔ قاصد نے یہ سُنتے ہی فاروق اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو اس صورتحال کی اطلاع دی ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو جواب دہی کے لیۓ مدینہ منورہ طلب فرمایا۔

خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے حاضر ہو کر کہا کہ عمر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ! والّٰلہ آپ میرے معاملے میں انصاف نہیں کرتے ہو ۔ فاروق اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تمھارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ۔ اور اس قدر انعام و صلہ شاعر کو تم نے کہاں سے دیا ؟ خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مال غنیمت سے جو میرے حصہ میں آیا تھا ۔

انعام دیا تھا۔ پھر خالد بن ولید رضی الّٰلہ تعالٰی نے کہا کہ اچھا ساٹھ ہزار سے جو کچھ زیادہ ہوا وہ بیت المال میں داخل کرتا ہوں ۔ چنانچہ حساب کرنے پر بیس ہزار زائد نکلے اور بیت المال میں داخل کر دیئے گئے ۔ اس کے بعد دونوں حضرات میں صفائی ہو گئی  اور کوئی وجہ کدورت باقی نہ رہی ۔
سنہ ۱۴ ھ سے فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو سردارانِ لشکر کی رپورٹوں اور عراق کی طرف سے آنے والے سپاہیوں کے معائنہ سے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ عربوں کو عراق کی آب و ہوا موافق نہیں آتی ۔

چنانچہ آپ نے احکام جاری کیۓ کہ اہلِ عرب کے لیۓ ایسی چھاؤنیاں قائم کی جائیں جن کی آب و ہوا ملکِ عرب سے بہت مشابہ اور صحت و بخش ہو تاکہ فوجیں لڑائی کے کام سے فارغ ہوا کریں تو ان چھاؤنیوں میں آ کر قیام کیا کریں ۔ اسی زمانے میں بصرہ کے مقام پر فوجی چھاؤنی دجلہ کے قریب قائم کی گئی ۔ اس چھاؤنی میں صرف پھوس کے چھپر تھے ۔ اور جب لشکری لوگ کسی مہم پر جاتے تو اُن چھپروں کو آگ لگا جاتے تھے ۔

واپس آ کر پھر اپنی ضرورت کے موافق چھپر ڈال لیتے تھے ۔ سنہ ۱۷ ھ میں فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے بصرہ میں مکانات بنواۓ اور ایک دوسری چھاؤنی یعنی کوفہ کے آباد کرنے کی منظوری دی ۔ اسی سال بصرہ میں مکانات بننے شروع ہوۓ اور اسی سال کوفہ کی آبادی شروع ہوئی ۔ ان دو مقامات کی آب و ہوا عربوں کو بہت موافق آئی اور چند روز کے بعد یہ دونوں شہر اسلامی طاقت کے مرکز شمار ہونے لگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :