حجاج بن یوسف ثقفی

جمعہ 29 اکتوبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

سندھ کی فتح میں حجاج کی توجہ پورے طور پر محمد بن قاسم کی طرف مبذول رہی وہ روزانہ خبریں منگواتا اور روزانہ محمد بن قاسم کو ہدایات بھیجتا تھا ۔ محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو سندھیوں کے لیے نہایت شفیق و رحمدل فاتح اور رعایا پر مہربان حکمران ثابت کیا ۔ اس نوجوان فتح مند نے جس رواداری ، بردباری ، سیرچشمی اور لطف و عطا کا اظہار کیا ۔

اُس کی مثالیں تاریخ عالم میں بہت ہی کم دستیاب ہو سکتی ہیں ۔ محمد بن قاسم کی فتوحات سندھ کا مفصل حال تاریخ ہند میں لکھا جاۓ گا ۔ محمد بن قاسم ملتان کو فتح کر چکا تھا کہ اُس کے پاس حجاج کے فوت ہونے کی خبر پہنچی مگر اُس نے فتوحات کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور سنہ ۹۶ھ  تک بندر سورت سے لے کر ملکِ کشمیر تک تمام مغربی ہندوستان کو مفتوح و محکوم کر لیا ۔

(جاری ہے)


ولید بن عبدالملک کے تخت نشین ہوتے ہی حجاج نے یزید بن مہلب کو خراسان کی گورنری سے حبیب بن مہلب کو کرمان کی حکومت سے معزول کر کے قید کر دیا تھا پھر مہلب کے تمام بیٹوں کو قید کر دیا ۔ یزید معہ اپنے بھائیوں کے قید خانے سے فرار ہو کر فلسطین میں ولید بن عبدالملک کے بھائی سلیمان بن عبدالملک کے پاس پہنچا جو وہاں کا عامل تھا ۔ حجاج نے ولید کو یزید بن مہلب کی شکائیتیں لکھیں لیکن سلیمان کی سفارش سے یزید بن مہلب اور اس کے بھائیوں سے ولید نے کوئی مواخذہ نہ کیا ۔

حجاج کے مزاج کی سختی نے اہلِ عراق کو پریشان کیا اور اکثر حجاج سے تنگ آ کر عراق سے فرار ہوۓ اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں جا کر مقیم ہوۓ ۔ وہاں حضرت عمر بن عبدالعزیز حجاز کے گورنر تھے ۔ انھوں نے عراق سے آۓ ہوۓ ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کیا ۔
سنہ ۹۳ ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عبدالملک کو ایک خط حجاج کی شکایت میں لکھا کہ اُس نے اہلِ عراق کو بہت ستا رکھا ہے اور اپنے ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھ گیا ہے ۔

حجاج کو جب اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے بھی ایک خط حضرت عمر بن عبدالعزیز کی شکایت میں ولید کو لکھا کہ اکثر فتنہ پرداز اور منافق لوگ عراق سے جلا وطن ہو کر عمر بن عبدالعزیز کے پاس چلے جاتے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز اُن کی گرفتاری سے مانع ہوتے ہیں یہ بات حکومت و سلطنت کے لیۓ موجبِ نقصان ثابت ہو گی ۔ مناسب یہ ہے کہ آپ عمر بن عبدالعزیز کو حجاز کی حکومت سے معزول کر دیں ۔


ولید نے ماہِ شعبان سنہ ۹۳ ھ میں عمر بن عبدالعزیز کو حجاز کی حکومت سے معزول کر کے اُن کی جگہ خالد بن عبدالّٰلہ کو مکہ معظمہ کا اور عثمان بن حبان کو مدینہ کا حاکم مقرر کر دیا ۔ خالد نے مکہ میں جاتے ہی کل اہلِ عراق کو نکال باہر کیا اور جنہوں نے اپنے مکانات اہلِ عراق کو کرایہ پر دے رکھے تھے ۔ جو لوگ حجاج کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیۓ مکہ معظمہ میں آۓ تھے ۔

اُنہیں میں سعید بن جبیر بھی تھے ۔ سعید بن جبیر کی خطا یہ تھی کہ وہ عبد الرحمٰن بن اشعت کے ہم آہنگ ہو گئے تھے اور حجاج کی نگاہ میں یہ خطا کوئی معمولی خطا نہ تھی ۔ خالد نے اُن کو گرفتار کر کے حجاج کے پاس بھیج دیا ۔ حجاج نے اُن کو قتل کر دیا ۔ سعید بن جبیر بالکل بے گناہ قتل ہوۓ اور اس قسم کے یہی ایک مقتول نہ تھے بلکہ بہت سے بزرگ اور نیک آدمیوں کو حجاج نے ظالمانہ قتل کیا ۔


ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک تختِ خلافت کا آرزو مند تھا کیونکہ عبدالملک نے ولید کے بعد سلیمان کو ولی عہد بنایا تھا اور اسی پر لوگوں سے بیعت لی گئی تھی ۔ ولید نے یہ چاہا کہ میں سلیمان اپنے بھائی کو محروم کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد بناؤں ۔ اس خواہش اور ارادے کا حال ولید نے جُدا جُدا اپنے سرداروں کے سامنے بیان کیا تو حجاج اور قتیبہ نے تو پسند کیا ۔

لیکن اوروں نے ولید کو ڈرایا اور کہا کہ مسلمانوں میں فتنہ برپا ہو جانے کا سخت اندیشہ ہے ۔ اسی سال سنہ ۹۵ ھ میں بہ ماہ شوال بیس برس عراق کی حکومت کرنے کے بعد حجاج نے وفات پائی اور مرتے وقت اپنے بیٹے عبدالّٰلہ بن حجاج کو عراق کا گورنر مقرر کیا ۔ ولید بن عبدالملک نے حجاج کے تمام عاملوں کو اُن کے عہدوں پر بدستور قائم رکھا ۔
ولید نے اپنے بھائی سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے کی جو کوشش کرنی چاہی تھی اُس میں وہ کامیاب نہ ہو سکا ۔

اگر وہ چند روز اور نہ مرتا تو شاید اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاتا ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ سلیمان ان سرداروں کا جنہوں نے ولید کے ارادے کی تائید کی تھی ، دشمن ہو گیا ۔ نیز ہر ایک اُس شخص سے جس کو ولید محبوب و مکرم رکھتا تھا ، سلیمان کو دشمنی ہو گئی ۔ اور اس کا نتیجہ آئیندہ عالم اسلام کے لیۓ کسی قدر مضر ثابت ہوا ۔ ولید بن عبدالملک نے ۱۵ جمادی الثانی سنہ ۹۶ ھ مطابق ۲۵ فروری سنہ ۷۱۵ میں پینتالیس سال چند ماہ کی عمر میں نو سال آٹھ مہینے خلافت کرنے کے بعد ملکِ شام کے مقام دیر مران میں وفات پائی ۔

ولید کے عہدِ خلافت میں سندھ ، ترکستان ، ثمرقند و بخارا وغیرہ ۔ اُندلس ، ایشیاۓ کوچک کے اکثر شہر و قلعے اور بعض جزیرے حکومتِ اسلامی میں شامل ہوۓ ۔ ولید کی خلافت مسلمانوں کے لیۓ ایک طرف راحت و آرام اور خوشحالی کا زمانہ تھا تو دوسری طرف فتوحات ملکی کا خاص زمانہ تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے بعد اس قدر عظیم و اہم فتوحات ملکی اور کسی خلیفہ کے زمانے میں اب تک مسلمانوں کو حاصل نہ ہوئی تھیں ۔ جب ولید کا انتقال ہوا تو اُس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک مقام رملہ میں تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :