واقعہ شہادت حضرت عمرِ فاروق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ - قسط نمبر2

جمعرات 9 ستمبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ کا ایک نصرانی غلام فیروز نامی جس کی کنیت ابو لولو تھی ، رہتا تھا ۔ اُس نے ایک روز بازار میں فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ سے شکایت کی ۔ کہ میرا آقا مغیرہ بن شعبہ مجھ سے زیادہ محصول لیتا ہے ۔ آپ کم کرا دیجیۓ ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے اُس سے دریافت کیا کہ کس قدر محصول وہ وصول کرتا ہے ۔

ابو لولو نے کہا ۔ سات آنے روزانہ ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی نے دریافت فرمایا کہ تو کیا کام کرتا ہے ۔ اُس نے کہا آہنگری ، نقاشی اور نجاری ۔ آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے ۔ یہ سُن کر ابولولو اپنے دل میں سخت ناراض ہوا ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے پھر اُسے مخاطب ہو کر کہا ۔

(جاری ہے)

کہ میں نے سُنا ہے تو ایسی چکی بنانا جانتا ہے ۔

کہ جو ہوا کے زور سے چلتی ہے ۔ تُو مجھ کو بھی ایسی چکی بنا دے ۔ اُس نے جواب میں کہا کہ بہت خوب ! میں ایسی چکی بنا دوں گا ۔ جس کی آواز اہلِ مغرب و مشرق سُنیں گے ۔
دوسرے دن نمازِ فجر کے لیۓ لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوۓ ۔ ابولولو بھی ایک خنجر لیۓ ہوۓ مسجد میں داخل ہو گیا ۔ جب نماز کے لیۓ صفیں درست ہو گئیں اور فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ امامت کے لیۓ آگے بڑھ کر نماز شروع کر چُکے۔

تو ابولولو نے جو مسلمانوں کے ساتھ صف اول میں کھڑا تھا ۔ نکل کر فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ پر خنجر کے چھ وار کیۓ ۔ جن میں ایک وار ناف کے نیچے پڑا ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے فوراً حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کو کھینچ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا ۔ اور خود زخموں کے صدمہ سے بے ہوش ہو کر گِر پڑے ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی کہ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ زخمی سامنے تھے ۔

ابو لولو اپنا وار کر کے مسجد نبوی سے بھاگا ۔ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی ۔ اس نے کئی لوگوں کو زخمی کیا اور کلیب بن ابی بکیر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا ۔ بالآخر گرفتار کر لیا گیا ۔ لیکن اس نے گرفتار ہوتے ہی خودکشی کر لی ۔ نمازِ فجر پڑھ لینے کے بعد لوگ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو مسجد سے اٹھا کر اُن کے گھر لاۓ ۔

اُنھوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ میرا قاتل کون ہے ۔ لوگوں نے ابولولو کا نام بتایا ۔ تو آپ نے فرمایا الّٰلہ کا شکر ہے کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا ۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یا جس نے الّٰلہ کو ایک سجدہ بھی کیا ہو ۔ ایک طبیب نے آ کر آپ کو دودھ پلایا تو وہ زخم کے راستے باہر نکل آیا ۔ یہ حالت دیکھ کر لوگ بہت پریشان ہوۓ اور عرض کیا کہ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا ۔

آپ بھی کسی کو اپنا جانشین مقرر فرما دیں ۔
آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت سعد بن وقاص ، حضرت زید بن العوام رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حضرت طلحہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حضرت علی کرم الّٰلہ وجہہ ، حضرت عثمان بن عفان رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو طلب فرمایا ۔ حضرت طلحہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ مدینہ منورہ میں تشریف نہ رکھتے تھے ۔ فاروقِ اعظم رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے باقی پانچوں شخصیات سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تین روز تک طلحہ کا انتظار کرنا ۔

اگر وہ تین روز تک آ جائیں ۔ تو اُن کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرنا اور اگر تین روز تک نہ آئیں تو پھر تم پانچ آدمی ہی مشورہ کر کے اپنے آپ میں سے کسی ایک کو اپنا امیر بنا لینا ۔
اس کے بعد آپ نے اپنے بیٹے عبد الّٰلہ بن عمر کو بلا کر کہا کہ اگر لوگ خلافت و امارت کے انتخاب میں اختلاف کریں تو تم کثرت کے ساتھ شریک ہونا ۔ اور اگر فریقین برابر تعداد کے ہوں تو تم اُس گروہ میں شریک ہونا جس میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ شامل ہوں ۔

پھر ابو طلحہ انصاری اور مقداد بن الاسود کو بُلا کر حکم دیا ۔ کہ جب یہ لوگ خلیفہ کے انتخاب و تقرر کی غرض سے ایک جگہ مشورہ کرنے کو جمع ہوں تو تم دونوں دروازے پر کھڑے رہنا ۔ اور کسی کو ان کے پاس نہ جانے دینا ۔ جب تک وہ مشورہ سے فارغ نہ ہو جائیں ۔ پھر آپ نے مذکورہ بالا حضرات کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ جو شخص خلافت کے لیۓ منتخب ہو ۔ اُس  کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے حقوق کا بہت لحاظ رکھے ۔

کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی الّٰلہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کی ۔ مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا ۔ انصار تمھارے محسن ہیں ۔ ان کے ساتھ تم کو احسان کرنا چاہیۓ ۔ ان کی خطا و لغزش سے حتی الامکان درگزر اور چشم پوشی اختیار کرنا مناسب ہے ۔ تم میں سے جو شخص خلیفہ منتخب ہو ۔ اس کو مہاجرین کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہیۓ۔ کیونکہ یہی لوگ مادہ اسلام ہیں ۔

اسی طرح ذمیوں کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیۓ ۔ ان کے ساتھ الّٰلہ اور رسول کی ذمہ داری کو کماحقہ ملحوظ رکھا جاۓ ۔ اور ذمیوں سے جو وعدہ کیا جاۓ اُس کو ضرور پورا کیا جاۓ ۔ ان کے دُشمنوں کو دُور کیا جاۓ ۔ ان کی  طاقت سے زیادہ ان کو تکلیف نہ دی جاۓ ۔
پھر اپنے بیٹے حضرت عبدالّٰلہ بن عمر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کو بُلا کر حکم دیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا کی خدمت میں جاؤ ۔

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیۓ جانے کی اجازت حاصل کرو۔ وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور فاروق اعظم کی التجا پیش کی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الّٰلہ تعالٰی عنہا نے فرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیۓ تجویز کی تھی لیکن اب میں عمر فاروق کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں ۔ اُن کو ضرور اس جگہ دفن کیا جاۓ ۔

یہ خبر جب حضرت عبدالّٰلہ نے فاروقِ اعظم کو سُنائی تو وہ بہت خوش ہوۓ ۔ اور فرمایا کہ میری سب سے بڑی آرزو بَر آئی ۔
چہار شنبہ ۲۷ ذی الحجہ سنہ ۲۳ ھ کو آپ زخمی ہوۓ ۔ اور یکم محرم سنہ ۲۴ ھ کو ہفتہ کے دن جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ساڑھے دس برس خلافت کی ۔ نمازِ جنازہ حضرت صہیب رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے پڑھائی ۔ حضرت عثمان غنی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حضرت علی رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ ، حضرت زبیر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبدالّٰلہ بن عمر رضی الّٰلہ تعالٰی عنہ نے قبر میں اُتارا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :