محمد بن قاسم کی وفات ۔ قسط نمبر 2

منگل 2 نومبر 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

سلیمان اپنے بھائی ولید سے چار سال عمر میں چھوٹا تھا ۔ ولید کی وفات کے بعد اس کے ہاتھ پر جمادی الثانی سنہ ۹۶ میں بیعتِ خلافت ہوئی ۔ حجاج چونکہ سلیمان کو ولی عہدی سے معزول کرانے میں ولید کا ہم خیال تھا اور قتیبہ بن مسلم بھی اس معاملے میں حجاج و ولید کا ہم نوا تھا ۔ لہٰذا سلیمان کو حجاج و قتیبہ دونوں سے سخت عداوت تھی ۔ حجاج سلیمان کے خلیفہ ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا ۔

قتیبہ البتہ خراسان کی گورنری پر مامور اور زندہ موجود تھا۔ قتیبہ کو اس بات کا احساس تھا کہ سلیمان کی خلافت میں میرے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھا جاۓ گا ۔
قتیبہ بن مسلم باہلی امیر خراسان نے جب سُنا کہ ولید فوت ہو گیا اور اس کی جگہ سلیمان بن عبدالملک تخت نشین ہوا تو اُس نے خراسان کی تمام موجودہ فوج اور سردارانِ لشکر کو جمع کر کے اپنی اس راۓ کا اظہار کیا کہ سلیمان بن عبدالملک کی خلافت سے انکار کرنا چاہیۓ ۔

(جاری ہے)

قتیبہ کے پاس جو فوج تھی اُس میں ایک زبردست حصہ بنو تمیم کا تھا ۔ بنو تمیم کا سردار دکیع تھا ۔ دکیع نے یہ رنگ دیکھ کر لوگوں سے سلیمان بن عبدالملک کی بیعت خلافت لینی شروع کر دی ۔ رفتہ رفتہ یہ خبر تمام لشکر میں پھیلی اور تمام قبائل دکیع کے گرد جمع ہو گئے ۔ قتیبہ نے ہر چند کوشش کی کہ لوگ اس کی بات سُنیں اور اس سے افہام و تفہیم کریں ۔ لیکن پھر کسی نے اس کی بات نہ سنی اور اعلانیہ گستاخیاں کرنے لگے ۔

قتیبہ کے ساتھ اس کے بھائی اور بیٹے اور رشتہ دار شریک رہے ۔ آخر لشکریوں نے لوٹ مار شروع کر دی اور قتیبہ کی ہر چیز کو لوٹنا اور جلانا شروع کر دیا ۔ قتیبہ کے رشتہ داروں نے قتیبہ کے خیمہ کی حفاظت کرنی چاہی لیکن وہ سب مارے گئے اور بالآخر قتیبہ بھی بہت سے زخم کھا کر بے ہوش زمین پر گرا اور لوگوں نے فوراً اس کا سر کاٹ لیا ۔ قتیبہ کے صرف بھائی اور بیٹے سمیت گیارہ افراد مارے گئے ۔

اُس کے بھائیوں میں صرف ایک شخص عمر بن مسلم اس لیۓ بچ گیا کہ اُس کی ماں قبیلہ بنو تمیم سے تھی ۔ دکیع نے قتیبہ کا سر اور اُس کی انگوٹھی خراسان سے سلیمان بن عبدالملک کے پاس بھجوا دی ۔ قتیبہ بن مسلم خاندان بنو امیہ کے سرداروں میں نہایت زبردست فتح مند اور نامور سردار تھا ۔ ایسے زبردست سردار کی ایسی موت نہایت افسوسناک حادثہ ہے ۔ لیکن چونکہ اُس نے خلیفہ وقت کے خلاف کوشش کرنے میں ناعاقبت اندیشی سے کام لیا تھا لہٰذا سلیمان بن عبدالملک پر قتیبہ کے قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا ۔


سلیمان بن عبدالملک پر سب سے بڑا الزام محمد بن قاسم کے معاملہ میں لگایا جا سکتا ہے ۔ سلیمان کو اگر حجاج سے عداوت تھی تو اس دشمنی کو حجاج کے رشتہ داروں تک بلاوجہ وسیع نہیں ہونا چاہیۓ تھا ۔ لیکن افسوس ہے کہ سلیمان نے محمد بن قاسم کو بھی اُسی طرح کشتنی و گردن زدنی سمجھا جس طرح وہ حجاج کو سمجھتا تھا ۔ محمد بن قاسم نہایت سمجھدار ، بہادر ، مستقل مزاج ، نیک نیت اور جوان صالح تھا ۔

اس نوجوان نے سندھ و ہند کی فتوحات میں ایک طرف اپنے آپ کو رستم و سکندر سے بڑھ کر ثابت کیا تو دوسری طرف وہ نو شیروان عادل سے بڑھ کر عادل و رعایا پرور ظاہر ہوا تھا ۔ اس نوجوان فتح مند سردار نے سلیمان کے خلاف قطعاً کوئی حرکت کبھی نہیں کی تھی ۔
حجاج کی وفات کے بعد بھی وہ اسی طرح فتوحات و ملک داری میں مصروف رہا جیسا کہ حجاج کی زندگی میں تھا ۔

اُس کے پاس جس قدر فوج تھی وہ سب کی سب دل و جان سے اُس پر فدا اور اُس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو بسرو چشم موجود تھی ۔ اور یہ بھی سب سے بڑی دلیل اس بات کی تھی کہ محمد بن قاسم نہایت اعلٰی درجہ کی قابلیت سپہ سالاری رکھتا تھا ۔ ایسے نوجوان کی جس کی ابتدا ایسی عظیم الشان تھی اگر تربیت کی جاتی اور اُس سے کام لیا جاتا تو وہ سلیمان بن عبدالملک کے لیۓ تمام براعظم ایشیا کو چین و جاپان تک فتح کر دیتا ۔

لیکن سلیمان نے جذبہ عداوت سے مغلوب ہو کر یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بھیج دو ۔ سلیمان کا یہ حکم درحقیقت تمام کارگزار اور فتح مند سپہ سالاروں کو بد دل بنا دینے کا ایک زبردست اعلان تھا ۔ کسی خلیفہ یا سلطان کے لیۓ اس سے بڑھ کر کوئی قابل شرم بات نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے سرداروں کے عظیم الشان اور قابل تعریف کاموں کا  ِصلہ بجاۓ تحسین و آفرین اور عزت افزائی کے قید و گرفتاری سے دے ۔


یزید بن ابی کبشہ سندھ میں آ کر زور و قوت کے ذریعہ محمد بن قاسم کو ہرگز ہر گز  مغلوب نہیں کر سکتا تھا ۔ محمد بن قاسم کے ہمراہیوں کو جب خلیفہ کے اس نامعقول حکم کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ تم اس حکم کی تعمیل ہر گز نہ کرو ۔ ہم تم کو اپنا امیر جانتے اور تمھارے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کیۓ ہوۓ ہیں ۔ خلیفہ سلیمان کا ہاتھ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکتا ۔

حقیقت بھی یہ ہے کہ محمد بن قاسم کو مغلوب کرنے کے لیۓ خلیفہ سلیمان کو اپنی خلافت کا پورا زور لگانا پڑتا کیونکہ یہاں محمد بن قاسم کے پاس اُس کی ہر دلعزیزی کے سبب ایسے ذرائع موجود تھے کہ سندھ کے ریگستان کا ہر ایک زرہ اُس کی اعانت و امداد کے کوشاں ہوتا ۔ مگر اس جوان صالح نے فوراً بلا تو قف اپنے آپ کو ابن ابی کبشہ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کا جرم مجھ سے ہرگز سرزد نہ ہو گا ۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد ابن ابی کبشہ نے دمشق کی جانب روانہ کر دیا ۔ وہاں سلیمان کے حکم سے وہ واسط کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا اور صالح بن عبدالرحمٰن کو اُس پر مسلط کر دیا جس کو اُس نے جیل خانے میں انواع و اقسام کی تکلیفیں دے دے کر مار ہی ڈالا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :