مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نا مانگ

بدھ 15 دسمبر 2021

Masood Ashraf

مسعود اشرف

ایک کہاوت  ہے کہ کسی محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں جن کے دس بچے تھے اور ان کی زبان پرہمیشہ ایک ہی فقرہ رہتا  تھا کہ مجھےسچا پیار نہیں ملا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے سچا پیار کیا چیز ہے؟  پیار کئ قسم کے ہوتے ہیں، انسان اپنی اولاد سے بھی پیار کرتا ہے اور انسان اپنے ماں باپ سے بھی پیار کرتا ہے  اور انسان اپنے دوست و احباب سے بھی پیار کر سکتا ہے، اپنے ملک اور دھرتی سے بھی پیار کرتا ھے، اور انسان خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بے انتہا پیار رکھتا ہے. لیکن ہم ہمیشہ پیار اور محبت ایک ہی طرف کیوں سوچتے ہیں. جب  بھی پیار اور محبت کی بات ہوتی ہے  تو انسان یہی سوچتا ہے  کہ دنیاوی عشق کے بارے میں بات هورهی ھے او صرف اورصرف معشوق کی بات ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

  اور پھر شادی کے بعد یہ بات ہمیشہ دیکھنے اور سننےمیں  آتی ہے  کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے متعلق  یہ کہتے ہیں کے شادی کے بعد ان میں بہت تبدیلی آگئی ھے۔  دیکھیں انسان تھوڑا بہت تو بدل ہی جاتا ہے اور بدلنا بھی چاہیے کیونکہ انسان بچپن سے جوانی میں آتا ہے اوربہت کچھ سیکھتا ہے اوراسی طرح اس کےطورطریقےاوراندازبیان اوراس کےاعمال اور رھن سہن بھی اسی کے مطابق  تبدیل ہو جاتے ہیں۔

جیسے جیسے اس کا علم اورشعوربڑھتا ہےاس کا زاویہ نگاہ تبدیل ھوتا رھتا ہے اوریہی ارتقاء انسانی ھے۔ قرآن مجید اس نظریے کی تائید کرتا ہے۔ “وہی ہے جس نے (اوّلاً) تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے، پھر تمہیں بچے کی صورت باہر نکالتا ہے اور پھر یہ توفیق بخشتا ہے کہ تم اپنی بلوغت کی عُمر کو پہنچو تاکہ پھر یہ امکان ہو کہ تم بوڑھے ہو” اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انسان بڑا ہو کر بچوں والی باتیں کرے اوراگر کرے گا تو وہ اس کی شخصیت کے مطابق نازیبا لگیں گیں۔

اور پھر انسان کی سوچ کا معیاراو شعوربھی وقت علم اور تجربہ که ساتھ  بڑھتا رہتا ہے اور ان چیزوں کا جس کا اسے پہلے احساس نہیں ہوتا تھا احساس ہونے لگتا ہے۔ اب یہی عمل ازدواجی تعلقات میں بھی کارفرما رھتا ھے۔  پہلے میاں بیوی اکیلے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو کافی وقت بھی دے پاتے ھیں لیکن پھر ان کی اولاد ھو جاتی ہے فیملی بڑھ جاتی ہے حالات بدل جاتے ہیں اورجہاں ان دونوں میاں بیوی کا پہلے تھوڑی آمدن میں بھی گزارا ہو جاتا تھا  لیکن حالات کی تبدیلی کے باعث اب نہیں ہوپاتا. پھر فیملی بڑھنےاوراخراجات بڑھنےکےباعث شوہرکی مصروفیات اور ترجیحات تبدیل ھو جاتی ھیں، اسے مزید کام کرنا پڑتا ہے یا کسی اور طرح حالات میں تبدیلی آ جاتی ہے۔

اگر حالات کو سمجھا نہ جائے اوراس کے ساتھ مطابقت نہ کی جائے تو ازدواجی زندگی میں مشکلات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، بعض دفعہ طلاق تک نوبت آجاتی ہے۔ نہ صرف اس میں بلکہ تمام چیزوں میں انسان کو وقت کے مطابق ڈھلنا چاھیے۔ اب ایک نوجوان کھلاڑی کو ہی لے لیں، جب وہ 16 سال کا ہوتا ہے تو اس کے کھیلنےکا دورانیہ 27 سال تک ھی ہوتا ہے جس میں وہ صحیح جوش اور جذبے سے کھیلتا ہےاس کے بعد چند سال تو اپنے تجربے کی وجہ سے سے گزارا کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد اسے کھیلنے سے ریٹائر ہونا پڑتا ہے اور کسی دوسرے رنگ میں اپنے آپ کوڈھالنا پڑتا ھے اور پھروہ کوچنگ وغیرہ شروع کر دیتا ہے یا تجزیہ نگار بن جاتا ھے۔

اسی طرح ازدواجی زندگی میں بھی بہت فرق پڑتا ہے، جہاں انسان جوانی میں دنوں نا سوۓ اورانتھک محنت کرتا رہے تو وہ تب بھی گزارا کرلیتا ھے۔ مگرایک عمر یعنی تقریبا چالیس سال تک پہنچتا ہے تو وہ تھکن محسوس کرتا ہے اس کے جسم کو آرام کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور وہ اتنی محنت نہیں کرپاتا جتنی وہ جوانی میں کر سکتا تھا۔  پھر دوست احباب کو بھی یہی شکایت رہتی ہے کہ اب ہم دوست بیٹھ کرگپ شپ نہیں مار سکتے ھیں اور مہینوں گزر جاتے ہیں اور ملاقات نہیں ہوتی۔

میرے خیال میں تو زندگی یونہی گزر جاتی ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے۔ ایک امریکن شاعر اور گلوکارھیری چیپن نے اپنے ایک گانے میں اس زندگی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے، وہ کہتا ہے کہ جب میں جوان تھا اور دن رات حصول رزق کی خاطرکام میں مصروف رہتا تھا جس کی وجہ سے اپنی اولاد کو بھی وقت نہیں دے پاتا تھا  اورمیرا بیٹا  بار بارشکایت کرتا تھا کہ بابا ہم کب یہ کام کریں گے کب مل کر کھیلیں گے، کب آپ ہمارے ساتھ وقت گزاریں گے؟ اور اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ بیٹا میں بہت مصروف ہوں  لیکن ایک دن ضروروقت ملے گا،ابھی مجھے یہ مشکل ہے  اورکل کو یہ کام ہے اورمجھے فلاں بل ادا کرنا ھے اور بہت مصروفیت ہے لیکن جلد ھی وقت نکالوں گا اور پھر هم تمام یہ کام کریں گے اور بہت مزہ آۓ گا۔

لیکن وہ کہتاھے کہ یہ کہتے کہتے پتا نہیں کیسے وقت گزر گیا اور میں بوڑھا ھو گیا اور میرا بیٹا جوان ھو گیا اور بیوی بچوں کے ساتھ اپنے گھرمیں رھنے لگا اور اب میں اس کو فون کر کہ پوچھتا تھا کہ بیٹا کب مجھ سے ملنے آؤ گے اور بچوں کو ملوانے لاؤ گے ؟ تو بیٹے کا جواب یہی ھوتا تھا کہ بابا میں بہت مصروف ھوں کام سے فرصت نہیں،چھوٹا بچہ بیمار ھے ، بہت سے بل ادا کرنے ھیں، بیوی کی طبیعت ناساز رھتی ھے، لیکن فکر نا کریں میں جلد آپ سے ملنے آؤں گا اور ھم مل کر بیھٹیں گے اور بہت مزہ آۓ گا۔

فیض احمد فیض صاحب نے تو کمال ھی نقشہ کھینچا ھے انسان کے شعورکی ترقی کا۔ آپ اس کو جس انداز میں بھی لے لیں ،ھر پہلو میں پورا آۓ گا۔ خواہ اس کو ملک اورقوم کی حالت میں رنگ دیں، خواہ اس کو کسی فیملی کے حالات میں، خواہ میاں بیوی کے آپس کے رشتے میں، گوهر رنگ میں شعوراورعلم کی ترقی اوراپنی پہلی کم علمی اورناسمجھی کا اعتراف نظر آۓ گا۔ کیوں کے انسان دنیا میں سیکھتا رہتا ہے، اورپنگھوڑے سے لحد تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نا مانگ" میں وہ پہلی سی شدت والا پیار تجھے نہیں دے سکتا ھوں۔ وہ کہتے ھیں کہ " میں نے سمجھا تھا تو ھے تو درخشاں ھے حیات، تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے،  تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات، تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے، تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے، یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے، اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا، ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم، ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے، جا بجا بکتے ہوئے کوچه و بازار میں جسم، خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے، جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے، پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے، لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے، اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے، اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا، راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا، مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ"  وہ کہتے ھیں کہ میرے خیال  تو تھا کہ میں نے تجھ کو پا لیا تو دنیا فتح کرلی اور تمام دنیا کا حا صل مجھے مل گیا اور تیرے نا پانے کہ دکھ که سامنے دنیا کے دکھوں کی حیثیت کچھ نہیں تھی، لیکن جب میری نگاہ میں بصیرت اور دوراندیشی آئ تو مجھے دنیا میں صدیوں سے ھونے والے تاریک اور گھناونے ظلم اسقدر واضح دکھائ دینے لگے اور انہوں نے مجبورکردیا میری نگاھیں کواس طرف لوٹ جانے کو اورتمام دکھ میرے دل کو دکھی کرنے لگے، میں تواپنی لاشعوری میں صرف اپنی محبت کہ دکھ کو بہت عظیم دکھ سمجھتا تھا، لیکن ھم تیرے حسن کےاتنےھی دیوانے ھیں اورتیرا حسن اتنا ھی دلکش ھے آج بھی مگر کیا کروں، اور بھی دکھ ھیں زمانے میں محبت کے سوا، راحتیں اور خوشیاں اوربھی ھیں وصل اور قربت کی خوشیوں که سوا۔

اوردلی سکون بھی مل سکتے ھیں اگر انسانوں کو ان کے حقوق مل جایں اور دنیا میں امن و سکون کی فزا قائم ھو جاۓ۔ آخر میں عرض کردوں کہ کیا مجال میری کہ فیض صاحب کہ کلام کی تشریح کروں لیکن ایک حقیرانا کاوش ھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :