ملالہ کے نام ایک خط

ہفتہ 5 جون 2021

Masood Ashraf

مسعود اشرف

جولائی کے ووگ میگزین پر ملالہ یوسف زئی کی تصویرکو دیھکا اور پھر لوگوں کے تبصرہ جات  فیس بک  اور ٹوئٹرپر پڑھے ۔ اکثر لوگوں کی یہی تاثرات  تھے کہ مغربی قومیں  ملالہ کو اتنا  بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کرتے ہیں اور آخر کیا وجہ ہے  کہ ملالہ کو ایک بار پھر میگزین کے کور پر پر ڈال دیا گیا ۔ مغربی سوسائٹی میں میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے  اور عورتوں کے حقوق کی برابری کا دن اگست میں منایا جاتا  ہے پھر عورتوں کے حقوق کے متعلق  ملالہ کو  کی اس وقت پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی
اگر  تو ملالہ  کوئی خاص پراجیکٹ کر رھی تھیں یا اور کوئی خاص  وجہ ھوتی تو بات سمجھ آتی ہے  لیکن ویسے ہی اس میگزین والوں کو کیا سوجھی کہ ملالہ کی تصویر کو میگزین کے کور پر ڈال دیا اور اس کا انٹرویو لیا جائے۔

(جاری ہے)


بہرحال  سوشل میڈیا پر پر لوگوں کے تاثرات پڑھنے کے  بعد  میں نے خود اس انٹرویو کو پڑھنے کی ضرورت محسوس کی جس میں لوگ ذکر کر رہے تھے  کہ ملالہ نے کچھ  تبصرہ اپنی زاتی زندگی کے متعلق کیا ھے اور کہا ھے کی انسان کو نکاح کرنے کی کیا ضرورت ھے اور اور اور اپنی زندگی کے متعلق جب سے کالج شروع کیا ہے کچھ  تفصیلات بتائیں جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں دوستوں کے ساتھ  شراب خانے میں بھی جاتی ہوں ہو لیکن میں وہاں پیتی نہیں ہوں ہو لیکن دوستوں کے ساتھ وہاں  جاتی ضرور ہوں۔

اب انٹرویو کے دوران ملالہ کی والدہ نے اسے ٹوکا لیکن ملالہ ہنس پڑی۔
اب اس انٹرویو سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے ہے کہ ایک لڑکی جو کسی  بہت ہی پرانے معاشرے سے اٹھ کے  ماڈرن دور میں آگئی ہے  اور بڑی خوش ہے اور اسی طرح اپنی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے  اور اس کے ماں باپ جاھل ہیں اور پرانے زمانے کی سوچ رکھنے والے ھیں۔ یہ دراصل انتہائی دبے لفظوں میں میں اسلام کی تعلیمات کے اوپر بھی حملہ تھا۔

ایک تصویر کھینچی گئی جس میں اور خاص طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کر کے بتایا گیا کہ تمھاری ثقافت تمھارہ کلچر اور تمھارا دین پرانا ھے ۔ اگر کامیابی چاہتے ھو تو ھماری ثقافت ھمارا طور طرز اور ھمارے دین کو اپناؤ۔ اور ملالہ صاحبہ نے ان کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں خوب مدد کی بلکہ یہاں تک بھی کہ دیا کہ نکاح یا شادی کرنے کی کیا ضرورت ھے۔


برحال ملالہ کی قربانی  اور ہمت  کی تعریف تو کی جانی چاہیے اور بہت بڑی قربانی اور تکلیف  سے وہ گزر چکی ہیں۔ ہم ان کو ان کے حوصلے کی داد  ضرور دیتے ہیں  اور ان کی ہر اچھے معاملے میں حوصلہ افزائی کرنے اور ساتھ دینے کا بھی وعدہ کرتے ہیں۔
 عورتوں کے حقوق کی بات کرنا اچھی بات ہے  لیکن اس میں دین لانے کی کیا ضرورت ہے۔اسلام نے جتنے حقوق عورتوں کو فراہم کیے ہیں وہ کسی اور دین نےفراہم نہیں کیے ہیں اور جو ماں کی عظمت خدا تعالی نے اسلام میں عورتوں کو عطا فرمائی ہے  اس کی نظیر کوئی اور مذہب پیش نہیں کرسکتا۔


 اب طالبانی خصلت کے  لوگ اپنی مرضی کا اسلام عام لوگوں پر ٹھونسنا چاہیں اس میں اسلام کا کیا قصور ہے۔
ملالہ کو چاہیے کہ عورتوں کے حقوق کے متعلق ضرور بات کریں مگر دین کے حوالے سے نہیں کلچر کے حوالے سے بات کریں۔ اگر  کلچر اور سوسائٹی عورتوں کے حقوق فراہم نہیں کر رہا تو اس میں اسلام کی تعلیم کا کیا قصور ہے ۔ اسلام تو واضح طور پرعورتوں کے حقوق فراہم کرتا ہے۔


اصل میں ابھی حال ہی میں فلسطین اور اسرائیل کی جھڑپ کا واقعہ پیش آیا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے سے بہت سے لوگوں نے اسرائیل پر تنقید کی ہے اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ھے۔ لیکن مین سٹریم میڈیا نے  اس کو اتنی کوریج نہیں دی جتنی دینی چاہیے تھی بلکہ بالکل ہی نہیں دی۔ بلکہ فلسطینیوں کے حقوق کے متعلق کوئی بھی بات کرے تو اس کو فوری طور پر  اینٹی سیمیٹک  اور اسرائیل کا دشمن کا خطاب دے کر  اس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔


میں خود اس چیز کا گواہ ہوں ہوں کہ میں نے خود  کافی کالمز اور مضمون اس بارے میں لکھے کہ اسرائیلی  جو ظلم فلسطینیوں پر کر رہے ہیں اور ناانصافی فلسطینیوں کے ساتھ ھوتی آرھی ھے اور جو اس وقت کی جارھی ھے اور ان کو مختلف اخبارات میں بھیجا  لیکن کسی نے ہمت نہیں کی اس کو شائع کرنے کی۔
صرف وھی خبریں شائع ہوتی رہیں  جس میں اس کا ذکر تھا کہ اسرائیل پر ظلم ہو رہا ہے حماس کی طرف سے اور دوسری طرف کی کہانی  سننے کو اور لکھنے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا۔


بہت بڑے بڑے مظاہرے بھی کیے گئے مختلف شہروں میں۔ لندن میں بھی ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا  فلسطینیوں کے حق میں لیکن کسی میڈیا والوں نے  اس کو کوریج نہیں دی۔
اگر اگر آپ سارے مضمون کو ذہن میں رکھیں  اور پھر سوچیں تو ملالہ  کو ووگ میگزین کے کور پر شائع کرنے کی  وجہ سمجھ میں آجائے گی۔
اصل میں میں ایک معصوم لڑکی جس کے ساتھ ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا تھا اور وہ واقعی  ایک ہیرو کی حیثیت سے پیش ہونی چاہئے تھی لیکن اب ملالہ کا چہرہ پوری دنیا میں میں اسلام کے خلاف نفرت کا نشان بن چکا ہے۔


اور مغربی ممالک اور اسلام کے دشمن  اس کو اسلام کے خلاف صرف استعمال کر رہے ہیں ہماری معصوم بیٹی کو۔
کیونکہ اگر آپ غور کریں کریں تو جب بھی ملالہ کا چہرہ  لوگ دیکھتے  ہیں تو ان کے ذہن میں فوری طور پر پر طالبان کی شکل سامنے آ جاتی ہے اور  اس طرح وہ  اسلام کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔
اور لوگوں کے ذہنوں میں اس بات کو ڈالنا چاہتے ہیں کہ طالبان اسلام  کا چہرا تھے اور اسی طرح وہ اصل میں  لوگوں  کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں  کہ کیا تم لوگ لوگ اس اسلام کو اپناؤ گے یا پسند کرو گے کچھ بھی اسلام کے خلاف کہے بغیر۔


اب سلمان رشدی کو لے لیں  اور غور کریں کہ کیا سلمان رشدی  بہت بڑا کالم نگار تھا تھا بہت بڑا مصنف تھا۔
اس نے کیا علم اور معرفت کی دنیا میں بہت بڑا مقام حاصل کرلیا تھا۔
اور اس نے جو کتاب لکھی تھی  کیا وہ ادب اور علم اور معرفت کا خزانہ تھی؟ ہرگز نہیں  صرف اور صرف اس نے اسلام کے خلاف آواز اٹھائی تھی  اور مغربی دنیا نے اس کو ہوا دی اور بہت سے انعاموں اور خطابات سے اس کو نوازا۔


اب میری بیٹی مغربی دنیا آپ کو بھی اسی مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ آزما کے دیکھ لیں۔ آپ ایسے کریں  کے فلسطینوں  کے حق میں  بیانات دینے شروع کر دیں بلکہ ایک دورا غزہ کا کریں اور پھر فلسطینی عورتوں اور لڑکیوں کے حق میں آواز اٹھائیں۔
آخر وہ بھی تو انسان ہیں لیکن جیسے ہی آپ آپ ایسا کریں گی پھر دیکھنا کہ آپ کو میگزین کے کور پر کون ڈالتا ہے۔


میری بیٹی اپنے چہرے کو  اسلام کی نفرت کا نشان مت بناؤ بلکہ اس کو ایک مثبت رنگ دو اور مغربی دنیا یا اسلام کے دشمنوں کی بغیر سوچے سمجھے نادانی میں مدد مت کر۔
آپ نے انٹرویو کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ میں بہت سے ملکوں کے سربراہوں سے ملتی ھوں اور وہ تمام مجھے تسلی اور وعدہ کرتے ھیں ویسا ھی عورتوں کے حقوق کے متعلق کوشش کریں گے لیکن کوئی بھی نہیں کرتا۔


وہ آپ کو عزت غلط مقصد کے لیۓ دیتے ھیں اور اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
بیٹی آپ بہت ہمت والی ہو اور آپ نے بہت قربانی دی ہے  اور بہت تکلیف سے گزری ھو۔ لیکن اپنی قربانی کو اسلام کی فلاح کے لئے استعمال کرو نہ کہ اس کے خلاف۔
اسلام ھی  دین حق ھے اور تمام دنیا کو اس کے پھیلنے کا خطرہ ھے پھر اسی لئے اپنی تمام کوششیں اسلام کے خلاف کرتے ہیں کیونکہ یھی واحد دین ہے جس سے ان کو بہت خطرہ ہے . ہندو مذہب یا کسی اور مذہب کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسلام کے پھیلنے کا خطرہ اوراسلام کی سچائی کے پھیلنے کا خطرہ ان کو دن رات سونے نہیں دیتا.
آپ ایک اچھا  اصلاحی کام کر رہی ہو تو وہ کرتی رہو لیکن  اس چیز کو یاد رکھو کہ مذھب کو بیچ میں نہیں لانا اور نہ ہی اسلام کویا اس کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے. اب آپ کہو گی کہ میں ایسا تو  نہیں کرتی لیکن بیٹا لوگ کر رھے ھیں اور آپ نادانی میں ان کا ساتھ دۓ جا رھی ھیں۔


مجھے پوری امید ہے کہ آپ کو بات سمجھ آگئی ہوگی .اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کی مدد فرمائے آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :