غلامی اوراصل آزادی

منگل 6 جولائی 2021

Masood Ashraf

مسعود اشرف

ابھی حال میں ھی وزیراعظم عمران خان صاحب کا ایک تقریب میں بیان جس میں انہوں نےمیڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ انگریزی بولنا کوئی جدید اور ماڈرن ہونے کی نشانی نہیں ہے .اور ساتھ ہی انہوں نے دوسرے واقعات کا بھی زکر کیا جس میں کرکٹ ٹیم کے لوگ گوروں کو دیکھ کر دل میں ناکامی تسلیم کر لیا کرتے تھے اوران سے اپنے آپ کو کمتر سمجھتے تھے۔

اور ان کا یہ پیغام تھا کہ ہمیں ان چیزوں سے باہر نکلنا پڑے گا۔ ان کا یہ بیان سن کرمجھے خوشی ہوئی اور میں نے سوچا کہ اس کے متعلق کچھ تفصیل سے لکھا جائے۔ خاص طور پر میڈیا میں اور دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک طوفان بدتمیزی دنیا میں پھیلا ہوا ہے  اور سب سے زیاد نوجوان نسل اس سے متاثرھورھی ھے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی بولنے سے اور انگریزی فلمیں دیکھنے سے اورویسی ھی حرکتیں کرنے سے وہ اسی طرح کے ہو جائیں گے  اوراپنی ثقافت اور اپنی تہذیب کو پیچھے پھینک رھے ہیں ان کی ثقافت سے متاثر ہو کر۔

(جاری ہے)

خوب مثال ھے کہ طوطا چلا ھنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔ عمران خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ جو چیز اصل ھوتی ھے اسی کی قیمت ھوتی ھے اورنقل کی کوئی قیمت نہیں ھوتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ھے کہ  “جوقومیں  اپنی ثقافت کو بھول جاتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں “  دراصل انسان کی فطرت ھی کچھ اس قسم کی ہے ہے اس کو وھی چیز اچھی لگتی ھے جواسے دستیاب نہیں ھوتی اور دوسرے کی چیزکو ھمیشہ بہتر سمجھتا ھے ۔

لیکن اگر اس فطرت کو بدل کر انسان  جو اس کے پاس ھو خوش ہو جائے اور اسی پر راضی ہوجائے اور یہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنے سے نیچے کی طرف دیکھو  کبھی اپنے سے اوپر کی طرف نہ دیکھو۔ اگر آپ اس فرمان پر عمل کریں گے تو آپ کو احساس ہو جائے گا خدا تعالی کے کس قدر فضل و احسان ہیں آپ پر۔ لیکن اس چیز کا احساس اس وقت ہوتا ہے ہے جب وہ خود اپنی آنکھوں سے تجربہ کر لے مگر کسی کہ بتاۓ ہوۓ پر یقین نہیں کرتا۔

  مثلا جو لوگ اپنے دیس میں بس رہے ہیں  ان کو باہر جانے کی خواہش ھوتی ہےاور وہ باہر کی چیزیں کھانا اور باہر کے کپڑے پہننا  پسند کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کامیابی صرف اسی میں ھے۔ اورمیڈیا اور فلم انڈسٹری بھی اسی قسم کا پیغام دے کرلوگوں کا زہن اسی طرف مائل کررھے ھیں۔ لیکن جو لوگ باہر کی دنیا میں بس رھےھوتے ہیں  وہ اپنے وطن کو اور کھانوں کو اور وطن کی چیزوں کو یاد کر رہے ہوتے ہیں جووہ پیچھے چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔

غرض انسان ہمیشہ خسارے میں ہی رہتا ھے او رکبھی بھی کسی حال میں خوش نہیں ہوتا۔ ھر چیزجس کی وہ خواھش رکھتا ھے کبھی پوری نہیں ہوتی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے “کہ کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ،کہیں زمین  نہیں ملتی  کہیں آسماں نہیں ملتا "
اور باھر کی دنیا میں بسنے والوں کی زندگی کا نقشہ ایک معروف شاعر مبارک صدیقی صاحب نےاپنی ایک پنجابی نظم میں کچھ یوں کھینچا ھے اس نظم کا ایک شعر پیش کر دیتا ھوں۔

وہ کہتے ھیں کہ
دل کردا سی  کہ یورپ جایے ، ھیٹ تے کالی عینک پایے      
پیٹر رابرٹ یار بنائۓ،         پیذے برگر تے ڈونر کھایے
اتھے جان پھنسا بیھٹے آں،  اسی کیتھے آ بیٹھے آں                                                                                             دیکھیں کسی اچھی چیز کو اپنانا بری بات نہیں ھے بلکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے کہ ھر اچھی چیزاور علم مومن کی ملکیت ھے جہاں سے ملے اپنالے۔

  مگرخدا تعالیٰ کی عطا کی چیز کو ٹھکرا کر اور برا بھلا کہ کر رد کرنا ناشکری ھے۔ کسی کو خدا گورا بنا دیتا ھے ، کسی کو کالا کسی کا قد چھوٹا کسی کا بڑا لیکن مکمل سکون اور خوشی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا میں ھی ھے۔ اگر خدا نے ہمیں سانولے یا کالے رنگ کا بنا یا چھوٹے قد کا یا بڑے قد کا جس قسم کا بھی بنایا ھے ھم اس کی تخلیق سے مطمئن ھیں۔ اور ھم میں کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ھونا چاھۓ اور ھم کو اس بات کا یقین ھونا چاھۓ کہ علم اور معرفت میں ھرایک کی برابری کر سکتے ہیں۔

صرف محنت اور جزبے کی ضرورت ھے۔
دیکھیں آپ چائنا یا جاپان والوں کی مثال لے لیں، یہ کبھی کسی قوم یا کلچر سے متاثر نہیں ھوتیں بلکہ اپنے کلچرکو اور اپنی ثقافت کو بڑے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے برعکس ہماری قوم ہمیشہ متاثررھی ھے اپنے احساس کمتری کےسبب۔ اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں ہم لوگ فرنگیوں سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں اور ان کی غلامی کرنے کو ہمیشہ تیار ہو جاتے ہیں۔


اگر ہماری قوم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں یہ غلامانہ زنجیریں توڑ نی ہوںگی۔ ہم میں کچھ کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو وہ ایمان کی ہے۔ اب آپ خود اپنے آپ سے پوچھ لیں کہ اگر آپ نے کوئی چیزخریدنی ہوجو اپنے ملک میں بنی ہوئی ہو اوردوسری باہر کے ملک سے بن کر آئی ہوتو آپ کس کو خریدنا پسند کریں گے ؟ آپ ہمیشہ باہر کی بنی ہوئی چیز کو ترجیح دیں گے، کیونکہ آپ کو اسکی کوالٹی پر شک نہیں ہوگا  اس کے برعکس آپ کو اپنے ملک میں بنی ہوئی چیز کا اعتبار نہیں ہوگا۔

سڑکیں بنوانے کے لیے بھی غیر ملکیوں کوٹھیکے دیۓ جاتے ھیں کیونکہ ہمیں اپنے ٹھیکیداروں پر اعتبار نہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان قوم ہیں مگراسلامی تعلیم پرعمل پیرا غیر مسلم ھی ھیں۔ علامہ اقبال صاحب نے ایک نظم شکوہ لکھی لیکن پھر خود ہی جواب شکوہ بھی لکھ دی جس میں انہوں نے بیان کیا کہ واقعی ہی ہم لوگ  کہلانے کو تو مسلمان ہیں مگر کوئی عمل مسلمانوں والا نہیں۔

  بہرحال اگر ہم لوگ ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں سچے دل سے وطن سے محبت کرنی ہوگی اور ہمیں کبھی بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی ثقافت اور اپنے کلچرکو فخر کے ساتھ دنیا میں پیش کرنا چاہیے۔ ہاں دوسرا علم ضرور سیکھیں انگریزی بھی سیکھیں مگراپنے کلچر اور اپنی زبان کا خون کرکے نہیں۔ ہمارے ملک میں طرح طرح کی زبانیں ہیں اور ہمیں ان کو بولتے ہوئے یا دنیا کو بتاتے ہوئے کبھی بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

بہت پیارا ملک ہے ہمارا بہت پیاری اور میٹھی زبانیں ھیں ہمارے ملک کی۔ انگریزی بول کر میری عزت میں کچھ اضافہ نہیں ہو جائے گا اس کے برعکس میں اپنا ماضی کھو دوں گا اگر اپنی مادری زباں کو بولتے ھوۓ کسی قسم کی شرم محسوس کروں یا اپنا دیسی لباس کے پہنتے ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے ساری زندگی اپنی باہر گزار دی بلکہ انہوں نے ساری دنیا ہی دیکھ لی ہے مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو سکون ان کو پاکستان میں ملتا ہوگا وہ کہیں نہیں پایا ہوگا اور وہ ان کے لباس سے اور ان کی زندگی کے رہن سہن سے نظر آ رہا ہے۔

پشاوری چپل اور شلوار قمیض پہن کردنیا کے سربراہوں سے ملاقات کر رھے ھیں فخر کے ساتھ بغیر کسی احساس کمتری کے۔ ایک اور نامور نوبل انعام یافتہ پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام کا زکرکرنا ضروری سمجھتا ھوں جنہوں نے اپنا نوبل انعام حاصل کرتے وقت اپنا خاص پاکستانی لباس اور سر پر پگڑی رکھ کروصول کیا اور اپنی روایتوں اور تہذیب کو دنیا کے سامنے پیش کیا بغیر کسی جھجک کے۔

آزادی اسی کا نام ہے جب آپ دل و دماغ سے کسی بھی قوم کی غلامی کرنے سے آزاد ہو جائیں گے۔ پہلے وقتوں میں  قومیں ایک دوسرے پر چڑھائی کیا کرتی تھیں اور ان کی تمام جائیدادیں اور ملکوں پر پر قبضہ کر لیا کرتی تھیں۔ آج کے دور میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ کسی قوم کو غلام بنانے کے لئے ان کے معاشرتی نظام پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور ان کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔

مثلا آپ کسی بھی قوم کو قرضے میں لے لیں تو پھر آپ نے اس قوم پر قبضہ کرلیا۔ پھر آپ ہی کی پالیسی چلے گی، مالک تو وہی ہوں گے اور آپ ان کے ہر حکم پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔  ہندوستان میں میں ایسٹ انڈیا کمپنی اسی لیے ہی قائم کی گئی تھی۔ کیوں کہ ایک دفعہ انھوں نے آپ کو اپنی چیزوں کا غلام بنا لیا اور مقروض کرلیا تو آپ ملک کا  قبضہ دے بیٹھے۔

اور ابھی بھی یہی ہو رہا ہے ہے کہ ہماری قوم چیزوں کی غلام بن گئی ہے جن کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اور قرضے پہ قرضہ لیا جا رہی ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ ایک وقت تک لیۓ جا رہی تھی۔ تو غلام تو آپ بن گئے۔ اور یہ معاملہ صرف اورصرف حکومت تک نہیں ہے۔ ذاتی طور پر بھی ہماری قوم کا ہر فرد چیزوں کا غلام ہو گیا ہے اور اس کے لئے وہ کبھی بھی قرضہ لینے سے گھبراتے نہیں ہیں صرف اور صرف جدید چیزوں کو حاصل کرنے کی خاطر۔


گاندھی جی بہت عقل مند انسان تھے۔ ان کا ایک دوہتی اورایک چادر اور ایک چارپائی پر زندگی بسرکرنااصل میں اپنی قوم کو ایک پیغام تھا سادگی سے زندگی بسر کرنے کا۔ کیوں کہ اگر غیر قوموں کوآپ کے ملک میں کوئی مفاد نظر نہیں آئے گا  تو خود ہی آپ کو چھوڑ دیں گی۔  لیکن اگر وہ دیکھیں گے کہ اس ملک کا ہر بندہ آپ کی چیزوں کا غلام ہے اور ان کو اس ملک میں سے فائدہ ہے  تو وہ ہر اپنی کوشش کریں گی آپ کو غلام رکھنے کی۔

اور اگرکوئی عقلمند بندہ وہاں سے اس کے خلاف آواز اٹھائے گا تووہ فورا جنگ کرنے پر بھی آمادہ ہو جائیں گی آپ کے خلاف اپنے مفاد کی خاطر۔
اب ہمارا ملک اگر ہر چیز میں خود کفیل ہو جائے اور دوسروں کی مصنوعات پر انصحار نہ کرے یا کم کرے اور اپنی بنائی ہوئی مصنوعات  دنیا میں بھیجےاورھرفرداپنے ملک میں بنی ھوئ چیزوں کو ترجیح دے تو دیکھیں پاکستان کو کتنی جلدی G7 or G10 سمٹ میں شرکت کی دعوت آجاۓ گی۔ مگرایمان داری شرط ھے۔
خدا کرے کہ ھمارہ ملک اورہماری قوم اصل آزادی کو حاصل کرنے کی توفیق پاۓ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :