ہوئے مر کے ہم جو رسوا

پیر 30 دسمبر 2019

Masood Hussain Jaffri

مسعود حسین جعفری

قوم کی آزمائش کا وقت کیا ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے اسکا تعین نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عہدِ حاضر میں ایسی کوئی گھڑی تیار کی گئی ہے مگر زبان اور کاغذات سے بہت کچھ کہہ کر پرانے خوابوں اور باتوں پر نیا رنگ وروغن چڑھانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے کہ ماضی کی طرح خوشنماں معلوم ہو ۔مصورانِ خوش خیال اگر چہ خاموش طبع ہیں مگر روغنیات سے واقفیت رکھتے ہیں بہرکیف اندورنِ خانہ کتنی ہی چپقلش ومنافقت کیوں نہ ہو مگر بیرونی سطح پر مطلع شفاف رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔


سابقین کے کئیے دھرے پر دانتوں کی نمائش اور موجودہ کے کارہائے نمایاں پر گل پاشی عہدِ گذشتہ کی زینت بڑھانے کے لئے بہت ہے اگر بات کا آغاز تبدیلی سے ہوا تھا تو تبدیلی کو واضع کرتے ہوئے سابقین کی عادات وفطرات سے کنارہ کشی اختیار کی جانی چاہئے لیکن یہ نہ تو ممکنات میں شامل ہے اور نہ ہی ایسی کو ئی ترجیحات زیرِ غور لانے کا تصور۔

(جاری ہے)

موجودہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ معاملات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں ۔لیکن اس سے پہلے تاریخ کے جھرنکوں سے کچھ ایسی ہوائیں چہرے کو بگاڑ رہی ہیں جس سے اندرونی کیفیات کا اظہار بھی بے بانگ دہل کیا جارہا ہے اور حقیقت بھی تو یہی ہے یعنی اگر تاریخی بات کی جائے اور یاد دلایا جائے تو بھی ایسا لگتا ہے کہ اظہارِ نفرت کھل کرسامنے آجائے ۔

طاقتور افراد اس بات پر بضد ہیں کہ کم از کم تین تک لٹکا کر رکھا جائے اور تاریخی واقعہ یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے قتلِ عام کرنے کے بعد ایک صحابی کے صاحب زادے کو سزادینے کے بعدتین دن تک لٹکا کے رکھا اس کی تفصیل میں جانے کے بجائے اس سے یہ سبق حاصل کیا جاسکتا ہے کہ لٹکانے کا آغاز کہاں سے ہوا اور کس قوم نے کیا ۔

بہر کیف راقم الحروف اس معاملہ پر کچھ کہنے سے پہلے جان کی امان چاہتا ہے ان لوگوں سے جومردے لٹکانے سے بھی گریزنہیں کرتے۔پاک وطن میں غداری کی تاریخ کیا ہے اس کو یاد ضرور کیا جاسکتا ہے مثال کے طور پر جب ہم 1951سے آغاز کرتے ہیں تو پاکستان کے مشہور شاعر جناب فیض احمد فیض کا نام آتا ہے اس کے بعد 1975عوامی نیشنل پارٹی کے جناب خا ن عبدالولی خان صاحب ہیں جن پر غداری کے کیس ایسے شخص کی خواہش پر بنائے گئے جس نے پاکستان کا ایک بازو کاٹ کے رکھ دیا صرف ان پر ہی نہیں بلکہ ان کی جماعت کے 51رہنماؤں پر غداری کے مقدمات بنائے گئے ۔

جنرل ضیاالحق مرحوم نے 1978کو تمام نامزد افراد کو معاف کرکے رہا کیا۔
1992پاکستان کا مقدمہ لڑنے والی خاتون سفیر ملیحہ لودھی ان پر بھی نااہلوں کے دورِ حکومت میں غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔2003نواز شریف کے رازدار پھر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے جناب مخدوم جاوید ہاشمی بھی غداری کے مقدمات میں نامزد ہوکر 23برس کی سزا پانے والے غدار ہیں مگر بعد ازاں انہیں 3سال 9ماہ کی قید کے بعد ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

2014میں جنرل مشرف نے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے 3نومبر2007کو ایمرجنسی نافذ کی تھی جس کا مقدمہ قائم کیا گیا اور 2019میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔جہاں تک لٹکانے کی بات ہے تو 1973میں روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق مفتی محمود مرحوم کا بیان شائع ہوا تھا مرحوم کی بھی یہی خواہش تھی کہ یحیٰ خان کو بھی پھانسی دے کر لاش قصہ خوانی چوک میں لٹکادی جائے(یحی خان کو پھانسی دے کر لاش قصہ خوانی چوک میں لٹکادی جائے1973روزنامہ جنگ) پاکستان میں غداری کے مقدمہ کس کس کی خواہشات کے مرہونِ منت رہے ہیں ذرا سا ماضی میں جھانکنے سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔

آئین پاکستان کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئین پاکستان کو منسوخ ،تحلیل یا عارضی طورپر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے یا ایسا کرنے کی سازش میں شریک ہوتا ہے یہ آئینی تعریف کی وہ شکل ہے جو آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد سامنے آتی ہے اور 18ویں ترمیم سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مشن پر کام کا آغاز کس کے دورِ حکومت میں ہوا اور وہ کون لوگ ہیں جنہیں بقول غفور صاحب کہ خطرات کا نیا ڈزائن کہا جاسکے بات بالکل واضع اور شفاف ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چند ملوکیت سے بھرپور خاندانی جماتیں اپنی خواہشات کا اظہار اسی طرح سے کرتی آئی ہیں ۔عوام الناس کے روبرو اختلاف وانحراف برقرار رکھنے والے مرد وزن نے ایک لمحے کے ہزارویں حصے سے بھی قبل خوش اسلوبی سے متفقہ رائے سے ایک دوسرے کی بات مان کر گویا ملک وقوم پر ایک عظیم احسان کیا جو کہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے مزین کرکے لکھا جائے گا۔

انصاف کا درس دینے والے اور اسی انصاف کو شعار بنانے والوں کے لئے لمحہ فکریہ نہ سہی مگر اس قوم کے لئے قابلِ تشویش ضرور ہے ۔
پاکستانی قوم کی یہ معصومیت نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم ہر قاتل کو چارہ گر سے تعبیر کرکے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور ہر قاتل ہمیں نئے مسائل میں پھنسا کر لندن امریکہ یا دبئی میں بیٹھ کر چین کی بانسری سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔

لیکن موجودہ حکومت سے اس قسم کی امیدیں وابستہ تو نہیں مگر ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔لیکن دلِ ناہنجار ہے کہ مانتا ہی نہیں کیونکہ عام انتخابات سے پہلے بھی ایک صاحب نے سینہ تان کر کہا تھا کہ لوٹی ہوئی دولت پیٹ پھاڑ کے نکال لی جائے گی اور قوم کو لوٹنے والوں کو گریبان سے پکڑ کر گوالمنڈی کی سڑکوں پر گھسٹا جائے گا مگر یہ خوابِ پر ملال شرمندہ ء تعبیر نہ ہوسکا قوم کی حالت بگڑی ہی رہی مگر ذاتی حالت سنورتی گئی یہاں تک کہ پیٹ پھاڑنے والے اور پیٹ پھٹوانے والے بغل گیر ہو گئے اور اس اہم فیصلے کے بعد تو ہوسکتا ہے کہ خاندانی راہ ورسم مزید بڑھائے جائے مزید کاروباری استحکام کی جانب بڑھ جائیں۔

 سو اسطرح لوٹی ہوئی دولت کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ ایک بات تو طے ہے کہ پی ٹی آئی کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس نے ملوکیت کے بت کو توڑا مگر بت شکن کاخطاب حاصل نہ کرسکے اسکی وجہ شاید ایسے پنچھی ہوں جو کسی ایک شجر پر آشیانہ نہیں بناتے۔ملوکیت کے شہکاروں کا غصہ اپنی جگہ مگراس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جرائم پیشہ عناصر کو اسمبلی میں لانے کے لیے کون بے چین رہتا ہے اور ان ہی مجرموں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرکے پاکستان،جمہوریت اور عوام کا مسلسل مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ تذلیل کی جاتی ہے۔

سندھ کی موجودہ حکومت کے قائدین اور چیدہ چیدہ اراکین جس میں وزراء مشیر اور رائٹ ہینڈ شامل ہیں کرپشن کے مقدمات میں نیب کو انتہائی مطلوب ہیں اور پیشیاں بھی بھگت رہے ہیں اکثر و بیشتر گرفتار ہوچکے ہیں اور کچھ بیرونِ ملک مفرور ہیں کچھ ایسے ہیں جو باقاعدہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں اور جمہوریت کو پاؤں تلے کچل رہے ہیں کچھ زمانت پر رہا ہوکر عوام پر طنز کررہے ہیں۔

بہرحال یہ نیب کے قوانین اور سندھ حکومت کا معاملہ ہے عوام کا مال قومی خزانے میں واپس آجائے اور بے رحم احتساب ہوجائے یہی قوم کے لئے ایک شاندار خوشخبری تصور کی جائے گی۔ موجودہ حکومت کے پاس بھی کچھ ایسے ہی مواقع ہیں جس کی بدولت عوام کھل کر اظہارِ عقیدت کرسکتے ہیں فیصلے کا حق فی الحال آپ کے پاس محفوظ ہے۔کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ مرحوم کو یاد کرکے یہ کہنا پرے کہ․․․․․․․․ ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا․․․․․․․․․․․نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :