دو بڑوں کا متوقع دورہ لیہ

بدھ 26 مئی 2021

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

خبر ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلٰی پنجاب آج 26 مئی کو ایک روزہ دورے پر لیه تشریف لا رہے ہیں جہاں وہ 5 ارب 80 کروڑ کے خصوصی پیکج کے تحت مختلف منصوبہ جات کا اعلان ، افتتاح اور متعدد منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں گے جن میں 5 نئے ریسکیو سنٹر ، یونیورسٹی اف لیه ، 7 نئے کالجز ، چوک اعظم میں ٹراما سنٹر ، چوبارہ میں 100 میگا واٹ سولر پراجیکٹ ، لیه میں ماں بچہ ہسپتال ،  لیه چوک اعظم دو رویہ سڑک  فیز ٹو ، نیا پاکستان منزل آسان کے سلوگن کے تحت 4 نئی سڑکوں کی تعمیر ، سمیت متعدد منصوبے شامل ہیں۔


پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع لیه میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا ایک ساتھ دورے پر تشریف لانا ایک خوش آئند عمل ہے پورے ضلع کی نظریں اس دورے پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اس سے پہلے وزیر اعلی کا تین بار دورہ ملتوی ہو چکا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا امید کرتے ہیں کہ اس بار یہ دورہ ضرور ہوگا اس حوالے سے انتظامیہ خاصی متحرک دکھائی دیتی ہے دورے کے تمام انتظامات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے شہر بھر میں صفائی ستھرائی کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ تجاوزات بھی ختم کر دی گئی ہیں جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ انتظامیہ کو کسی بڑے دورے پر ہی دورہ کیوں پڑتا ہے عام طور پر تو انتظامیہ لسی پی کر سوتی رہتی ہے اور عوام ذلیل ہوتے رہتے ہیں مگر جب کسی بڑے کی آمد متوقع ہو شہر کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے اس لیے تو دل چاہتا ہے کہ بڑوں کے بڑے دورے ہوتے رہیں تو اچھا ہے اس سے اور کچھ نہیں تو شہر کی صفائی تو ہوتی رہے گی بہر حال یہ روایت ہے سب اچھا دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو اچھا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)


دورے کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سامنے آنے والی پریس ریلیز میں جن منصوبوں کو خصوصی پیکج میں شامل کیا گیا ہے ان میں بہت سے سابقہ دور میں شروع کئے جا چکے تھے یا ان کا اعلان کیا جا چکا تھا  جن میں یونیورسٹی آف لیہ جس کی عمارت تقریباً مکمل ہو چکی ہے ماں بچہ ہسپتال کی فیزیبلٹی رپورٹ مکمل ہو چکی تھی جبکہ لیه چوک اعظم دو رویہ سڑک کا بھی پہلا فیز سابقہ دور میں مکمل ہو چکا تھا تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے سے جاری منصوبوں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔


مگر اس حوالے سے ہم چند مسائل کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن میں خاص طور پر ایم ایم روڈ کی دو رویہ تعمیر ہے جو کہ وسیب کے چار اضلاع مظفر گڑھ ، میانوالی ، بھکر اور لیه کا دیرینہ اور مشترکہ مطالبہ ہے جو کہ جی ٹی روڈ کے بعد سب سے مصروف شاہراہ ہے جس پر ٹریفک کا بے پناہ دباؤ ہوتا ہے مگر سنگل روڈ ہونے کی وجہ سے حادثات ایک معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے اسے خونیں روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے ماضی میں اسے نظر انداز کیا گیا جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی متعدد بار یقین دہانیوں کے باوجود اس پر کام شروع نہیں ہو سکا وسیب کے لوگ یہ امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم دورہ لیه کے موقع پر ایم ایم روڈ کی دو رویہ تعمیر کے لیے خصوصی فنڈ جاری کرنے کا اعلان کریں گے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ موجودہ حکومت سے سابقہ منصوبوں پر ہی تختیاں نہیں لگائیں بلکہ کچھ نیا بھی شروع کیا۔


اسی طرح تھل ڈویژن اور چوک اعظم تحصیل بھی یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے وزیر اعظم کے گزشتہ دورہ لیه کے موقع پر جب عوام چوک اعظم کو تحصیل بنائے جانے کے اعلان کی امید لگائے بیٹھے تھے تو وزیر اعظم نے مظفر گڑھ کے قصبے چوک سرور شہید کو تحصیل بنانے کا اعلان تو کیا مگر چوک اعظم کو بھول گئے جس سے لوگوں کو خاصی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اس بار چوک اعظم کو نہیں بھولیں گے۔

تھل ڈویژن کا قیام بھی عوام کا ایک اہم اور دیرینہ مطالبہ ہے سابقہ دور میں اس حوالے سے اچھا خاصا لولی پاپ دیا گیا موجودہ دور میں بھی کئی بار امید دلائی گئی لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی حالانکہ اگر کوٹ ادو کو ضلع بنا کر اور پھر لیه ، کوٹ ادو اور بھکر پر مشتمل تھل ڈویژن بنایا جائے تو پورے خطے کے لوگوں کے لیے آسانی ہوگی امید ہے وزیر اعظم اس پر خصوصی توجہ دے کر عوام کو خوشخبری دیں گے۔


اسی طرح جنوبی پنجاب صوبے کا قیام موجودہ حکومت کا سب اہم وعدہ تھا جو کہ اب صوبے سے صوبائی سب  سیکرٹریٹ تک محدود ہو چکا ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ بھی اختیارات سے محروم ہے اور مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے پورا وسیب آج بھی لاہور کی طرف دیکھتا ہے اور لوگوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اپنے دورہ لیه کے موقع پر صوبائی سب سیکرٹریٹ کو مکمل فعال اور با اختیار بنانے کا اعلان کرکے  اپنے وعدے کی لاج رکھ کر وسیب کو خوشخبری ضرور دیں گے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلانات کرنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے تاریخ حکمرانی یہی بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں اعلانات کر کے خوش تو کیا جاتا ہے مگر پھر کچھ نہیں کیا جاتا اور دیا گیا سب کچھ بھی واپس لے لیا جاتا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اب یہ تاریخ نہیں دہرائی جائے گی بلکہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب کا دورہ نا صرف ضلع لیه بلکہ پورے وسیب کے لیے مسائل کے حل اور ترقی و خوشحالی کی نوید ثابت ہوگا اور مرکزی و صوبائی حکومتیں  اپنے اعلان کردہ منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گی جس سے اس پسماندہ اور دور افتادہ خطے میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا تاہم اگر حکومت نے وعدہ خلافی کی روایت برقرار رکھی تو پھر تحریک انصاف کو ماضی کی حکمران سیاسی جماعتوں کا حشر نہیں بھولنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :