قرات العین کا شوہر کے ہاتھوں بہیمانہ قتل

پیر 19 جولائی 2021

Mehwish Khan

مہوش خان

کل قرت العین کی موت کی خبر نے مجھے اندر تک ہلا دیا ،دکھ سے میرا سارا جسم چور ہے۔
جن کو نہیں معلوم ان کو بتاتی چلوں کہ قرات العین پاکستان کے کسی شہر میں رہتی تھی۔چار بچوں کی ماں تھی۔شوہر سے مار کھا کھا کر آخر اپنی جان کی بازی ہار گئ۔اور یوں ظلم سہہ سہہ کر اس نے یہ دنیا ہی چھوڑ دی۔
ماں مر گئ باپ کو پولیس پکڑ کر لے گئ اور چار بچے رل گئے۔


وہ میری کچھ نہ تھی پر ایک انسان تھی۔اللہ کی بندی تھی۔کسی کی بیٹی تھی کسی کی بہن تھی اور سب سے بڑھ کر وہ کسی کی ماں تھی۔
شادی ہونے کے کچھ ہی عرصے میں اندازہ ہوجاتا ہے میاں بیوی دونوں کو کہ آگے زندگی کیسے گزرے گی۔اسی لئے اندازہ ہوجانے پر فیصلہ جلد از جلد کرلیں چاہئے۔
مگر حالات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہوجائیں مرد اور عورت دونوں ہی علیحدہ ہونے یا طلاق کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں گالی سمجھتے ہیں شاید لوگوں کے ڈر سے ،
 جب کہ شریعت میں ایسا ہرگز نہیں ورنہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دو بیٹیاں اس عمل سے نہ گزرتیں۔

(جاری ہے)


طلاق اس دور میں صحابہ و صحابیات کے درمیان بھی ہوجاتی تھی۔
مگر آج شادی ہی کو اس قدر مشکل امر بنا دیا گیا ہے کہ دوسری شادی کا انسان کیا سوچے۔
کہ پہلی ہی اتنی مشکل۔سے ملی یا ملا ہے تو دوسرا کون ڈھونڈے۔
ہمارے معاشرے میں آج کل شادیاں جس دھوم دھام سے کی جاتی ہیں وہاں یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ شادی تو زندگی میں ایک مرتبہ ہی ہونی ہے تو چاہے قرضہ لینا پڑے مگر نمود و نمائش کا کوئ موقع ہاتھ سے نہ جانا پائے۔


جب کہ اسلام میں نکاح انتہائ آسان ہے،نکاح کیا زندگی گزارنے کے اصول انتہائی آسان ہیں۔مگر
مایوں ،مانجھا، ابٹن،ڈھولکی،برائیڈل شاور ،مہندی،ڈھولکی، بارات ،ولیمہ اور پھر مکلاوا۔۔۔۔۔۔کہاں سے آئے گا اتنا پیسہ اگر ایک نوجوان جس کی عمر 22 سے 24 سال ہے ۔اور وہ باپ جس کی ایک سے ذائد بیٹیاں ہیں۔
مگر وہ مجبور ہیں اور ان ہی فضولیات پر پیسہ خرچ کرنے کو انھیں اپنی قیمتی عمر پیسہ کمانے اور باہر ممالک کی خاک چھاننے کے لئے گزارنی پڑتی ہے۔

جو کہ سراسر ظلم ہے۔
نکاح ایک ضرورت ہے جسے جتنی جلدی پورا کیا جائے اتنا سکون ہے۔
بھوکے کے آگے کھانا رکھ کر آپ اسے کھانے نہ دیں یہ کیسے ممکن ہے۔
گھر سے باہر نوجوان لڑکے لڑکیاں بن سنور کر گھومیں پر نکاح میں نہ آ سکیں تو معاشرہ تو خرابی کی طرف ہی جائے گا۔
بات ہورہی تھی قرت العین کی۔نہ جانے کیا وجہ تھی کہ وہ 4 بچوں کی ماں بن کر بھی مار کھاتی رہی۔


اور مارنے والا اسے کیوں مارتا تھا اس کا پتہ لگانا بھی بہت ضروری ہے۔
ہمارے معاشرے میں جن فضول خرافات نے اپنے پنجے گاڑھ لیئے ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔
عورتوں کی بے جا فرمائشیں ہیں کہ پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
اس سے پہلے بھی بہت دفعہ لکھ چکی ہوں ،اور ہر مرتبہ مجبورا پھر لکھنا پڑتا ہے۔
شادی کے بعد کہیں گھومنے پھرنے کی فرمائش، باہر کھانا کھانا آئے دن،بے بی شاور پھر بچے کے لئے عمدہ چیزیں خریدنے کی خواہش پھر ڈلیوری بھی کسی اچھے بڑے ہسپتال میں،نارمل نہیں کروانی آپریشن سے،
پھر عقیقہ و سالگرہ،
یہاں بھی ایک عجب تماشہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک۔

نیک و سنت کے کام کو لوگ موخر کرکے رکھتے ہیں ایک خرافات کے لئے کہ بچے کی پہلی سالگرہ کا کیک اور عقیقہ ساتھ ساتھ،شیطان کس آسانی کے ساتھ آپ کے نیک کام کو گناہ میں تبدیل کرادیتا ہے۔
پھر بچوں کی پڑھائ اور دن بدن بڑھتی ہوئ ضروریات و اخراجات۔۔۔۔آخر کہاں سے لائے ایک اکیلی جان مرد اتنا پیسہ ،ہم عورتیں کیوں نہیں سوچتیں کہ اگر وہ خود کو بیچ بھی دے تب بھی اتنا خرچہ نہیں اٹھا سکتا۔


ہم کیوں دوسروں کی آسائشوں کو دیکھ کر خود بھی زبردستی ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر بار سارا قصور مرد کا نہیں ہوتا بہت ساری جگہوں پر ہم عورتیں بھی قصور وار ہوتی ہیں۔
ہر شادی پر نیا جوڑا وہ بھی قیمتی،پھر سر سے لے کر پیر تک کی میچنگ،
عید بقر عید پر جوڑے تحفے تحائف گھر والوں اور دیگر رشتے داروں کی بلاوجہ کی سالگرہ کی تقریبات پر ہر وقت کچھ نہ کچھ دینا ۔


اگر شوہر یہ سب پورا نہ کرسکے تو بلاوجہ کی لڑائ جھگڑے۔۔۔۔طعنے تشنے۔۔۔۔اور پھر انجام؟
لہذا کوشش کریں کہ اس مہنگائ کے دور میں جتنی شوہر کی حیثیت ہے اسی کے مطابق گزارا کریں۔بے جا تقریبات و رسومات میں نہ پڑیں
ایسے لوگوں سے خود کو دور رکھیں جو فضول خرچی و دکھاوے میں اپنا وقت و پیسہ خرچ کرتے ہوں۔
آپ کا شوہر دس ہزار کمائے آپ خوشی سے اسے بھروسہ دلائیں کہ میں اسی میں گزارا کروں گی چاہے لاکھوں کمائے مگر خرافات کی طرف نہ جائیں کہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائ ہے۔
یہ صرف ایک پہلو ہے ہمارے معاشرے میں ہونے والے میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کا۔موقع ملا تو مزید پہلووں پر بھی قلم اٹھاوں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :