والدین کی بےجا سختی بغاوت کا سبب

منگل 15 جون 2021

Memona Seher

میمونہ سحر

آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہوگا کہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی جب کسی جرم یا غلط کام کرتے ہوئے پکڑا جائے تو لوگ کہتے ہیں والدین تو بہت نیک تھے اس کے اولاد پتہ نہیں کس پر گئی ہے ۔ اللہ ایسی بدبخت اولاد کسی کو نہ دے جو والدین کے لیے شرمندگی کا باعث بنے
کیا آپ نے سوچا جو بچے غلط کاریوں میں پڑ جاتے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہوتا ہے ؟ کچھ کو تو چلو حد سے ذیادہ آزادی ملی ہوتی ہے جو بگاڑ کا سبب بنتی ہے لیکن کچھ گھرانے جن میں بہت ذیادہ سختی اور دینی قسم کا ماحول ہوتا ہے ان کے بچے بھی اکثر ایسے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں جو والدین کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں ۔

لبرل گھرانوں میں تو چلو آزادی بگاڑ کا سبب بنتی ہے لیکن مڈل کلاس گھرانوں میں جہاں  والدین کی بہت کڑی نظر ہوتی ہے اولاد پہ وہاں ایسے واقعات کیونکر ہوتے ہیں ؟
شائد میری بات سے آپ کو اختلاف ہو لیکن جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے جن گھروں میں بے جا سختی اور روک ٹوک ہوتی ہے وہاں بغاوت جنم لیتی ہے ۔

(جاری ہے)

اس کس مطلب یہ نہیں کہ والدین بلکل ہی آزادی دے دیں بچوں کو اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کریں ۔

بلکل کریں کیونکہ یہ تربیت کا حصہ ہے اور اسلام میں والدین سے تربیت کے بارے میں پوچھا جائے گا لیکن کچھ والدین بچوں کو تربیت کی آڑ میں قیدی بنا دیتے ہیں ۔ جب بچوں کو کہیں آنے جانے ، یا اپنے دوستوں سے ملنے کی آزادی نہیں ہوگی وہ ذہنی مریض بن جائیں گے ۔ جب انہیں باہر نکلنے کی ہی اجازت نہیں ہوگی وہ کیسے جان پائین گے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟
 ہمارے مڈل کلاس گھرانوں میں یہی مسئلہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو خود سے اتنا دور اور ادب کے دائرے میں رکھتے ہیں کہ بچے ڈر کے مارے اپنے دل کی بات ، یا اپنی کوئی بھی خواہش ان سے نہیں کہ سکتے ۔

جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں گھر سے باہر جب کوئی ایسا شخص ملتا ہے جو انکی بات غور سے سنتا ہو ، انہیں ذرا سا پیار دکھائے تو وہ اس سے مانوس ہو جاتے ہیں اپنی ہر بات اسے سے شئیر کرتے ہیں اور والدین سے دور ہونے لگتے ہیں ۔ اور اسی سب میں وہ اکثر غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو انکی نادانی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں
ہمارے ہاں بچوں کا والدین کے سامنے اونچا نہ بولنا ، ان سے بحث نہ کرنا ، چپ چاپ انکی بات ماننا یہی اچھی تربیت اور احترام مانا جاتا ہے جب کہ یہی بات غلط ہے ۔

اگر کوئی بچہ والدین سے کچھ منوا ہی نہیں رہا ، ضد ہی نہیں کر رہا نہ والدین سے کچھ شئیر کرتا ہے اپنی زندگی کا تو کیسے وہ صحیح راہ پر جا رہا ہے ؟
خاص کر بیٹیوں کے بارے میں کچھ لوگ بہت تنگ نظر ہوتے ہیں ، انہیں کہیں بھی جانے کی ، کہیں گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ نتیجتاً ایسی لڑکیاں گھر سے باہر جہاں انہیں انسیت ملے وہاں توجہ دینا شروع کر دیتی ہیں جو کہ انکی زندگی تباہ کرنے کا سبب بنتا ہے
خدارا اپنے بچوں کو ذہنی مریض نہ بنائیں ، انہیں خود کے ساتھ اتنا مانوس کریں کہ وہ اپنی ہر بات بلا جھجھک آپ کے ساتھ شئیر کرسکیں ۔

انہیں اچھی جگہوں کے ساتھ ساتھ ایسی جگہوں پر بھی کے کر جائیں جو کہ کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہوتیں ، وہاں خود ان کے ساتھ جائیں اور انہیں بتائیں کہ یہ سب غلط ہے ۔ کیونکہ اگر آپ خود انہیں ایسی چیزوں کی یا ایسی جگہوں کی پہچان نہیں کروائیں گے تو وہ کسی اور کے ساتھ جائیں گے وہاں اور پھر آپ انہیں روک نہیں پائیں گے
اپنی بیٹیوں کو آزادی دیں ، انہیں اپنی دوستوں سے ملنے جلنے ، پڑھنے اور گھمانے پھرانے لیکر جایا کریں انہیں اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے ماڈرن بننے کی اجازت دیں کیونکہ ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہان یہ وقت کی ضرورت ہے
ہم میں سے اکثر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے شادی کے قابل ہیں ، کچھ شادی شدہ ہیں ، کچھ کی ہونے والی ہے اور کچھ کی چند سال تک ہو جائے گی ۔

سب والدین بنیں گے تو میری ان سے یہی درخواست ہے کہ اپنے بچوں کے خود سب سے اچھے دوست بنیں ۔
کسی دانا نے تربیت اولاد کے لیے ایک بہترین اصول دیا تھا جو کہ مجھے بہت پسند ہے اور بلاشبہ بہترین ہے
انہوں نے فرمایا تھا کہ
"بچوں کی پیدائش سے پانچ یا چھ سات سال تک انکے غلام بن کر رہیں"
"چھ سے بارہ سال تک انکے حاکم بن کر"  
"بارہ سے اٹھارہ ، بیس سال تک انکے دوست بن کر"
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی جو والدین بچوں کے سب سے اچھے دوست خود ہوتے ہیں انکا باہر سے کوئی دوست نہیں ہوتا اور جب وہ اپنی ہر بات آپ کو خود بتائیں گے تو 80٪ چانس ہیں کہ آپ انہیں کھوئیں گے نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :