کچہری

بدھ 13 مئی 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

اس ملک کی صحافت کی تاریخ بانجھ نہیں‘ یہ بہت ذرخیز مٹی ہے البتہ ماؤں نے اب مولانا ظفر علی خان‘ مولانا جوہر علی‘ سید ابو الاعلی مودودی‘ نواب ذادہ نصراللہ خان‘ آغا شورش کاشمیری‘ صلاح الدین‘ عبد لکریم عابد‘ ممتاز حمید راؤ‘ زیب النساء حمید اللہ جیسی صحافتی شخصیات جنم دینا چھوڑ دیا ہے‘ ان سب نے جرائت مندانہ زندگی گزاری اور اجلا کردار دکھایا ہے‘ مجال ہے ان شخصیات پر ان کے کردار کے حوالے سے انگلی اٹھائی جاسکے‘ ان میں اس عہد کے ایک اخبار نویس عبد الکریم عابد ”سونے کی کان “چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔

(جاری ہے)


اخبار نویس کے طور پرپوری زندگی قلم کی آبرو ایسی نبھائی کہ آخری وقت میں کینسر کے علاج کے لیے جیب میں پیسے نہیں تھے‘ جنگ‘ جسارت سمیت متعدد اخبارات کے مدیر رہے‘ جہاں بھی رہے اپنے کارکنوں کے ڈھال بنے رہے‘ جہاں بھی خوبی کا پہلو نکلا اسے کارکن کے لیے وقف رکھتے اور ہر غلطی کو خود اپنے سر لیتے تھے‘ جو بھی لکھا خود لکھا اور کسی بزنس مین کے کلرک بن کر اس کے لیے کالم نہیں لکھے‘ کچھ عرصہ ہوا‘ ایک روائت چلی آرہی ہے کہ چند ماہ کے وقفے کے بعد کالم نگاروں اور اخبار نویسوں‘ کی ایک فہرست سامنے آجاتی ہے اور ایک کاروباری شخصیت سے مالی فائدے حاصل کرنے کے الزامات لگتے‘ جونہی فہرست سامنے آتی اور تردید اور وضاحت آنا شروع ہوجاتی ہے‘ چیلنج کیا جاتا ہے کہ ثابت کیا جائے‘ ثابت کیسے ہوگا؟ کیا کسی نے کسی کے سامنے لین دین کیا ہے؟ اور ویسے بھی ننگے حمام کے کھیل میں کون کسی کی گواہی دے گا؟ لہذا فہرست اور وضاحت کا کھیل جاری رہے گا‘
 برصغیر اور پاکستان کی صحافت نے مولانا ظفر علی خان‘ مولانا جوہر علی‘ سید ابو الاعلی مودودی‘ نواب ذادہ نصراللہ خان‘ آغا شورش کاشمیری‘ صلاح الدین‘ عبد لکریم عابد جیسی شخصیات دیکھی ہیں‘ کہ جنہیں خریدنا آسان تھا‘ یہ سب ہمیشہ انمول رہے‘ نواب ذادہ نصراللہ خان اکثر گلہ کیا کرتے تھے کہ خانہ ساز خبریں بن رہی ہیں‘ پرنٹ میڈیا کی ایک تاریخ ہے اور پاکستان میں نجی الیکٹرانک میڈیا بھی اب اپنی تاریخ بنا رہا ہے اس کی پاکستان میں ابھی عمر ہی کیا ہے‘ یہی کوئی ‘سترہ اٹھارہ سال‘ لیکن یہ پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ گیا ہے‘ وجہ تیز رفتار زندگی ہے‘ ادھر گفتگو ہوئی ادھر ٹی وی پر پٹی چلنا شروع ہوجاتی ہے‘ اب خبر کی اشاعت کے لیے اگلے روز کا انتظار نہیں کرنا پڑتا‘ الیکٹرانک میڈیا کے پاس وقت نہیں ہے اس کی مجبوری ہے کہ اسے ہر سیکنڈ کچھ نہ کچھ ضرور سکرین پر دکھانا ہے‘ اسی وجہ سے معیار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں…… بہت سے ایسے بھی کہ جن کی وجہ سے جائز سوال اٹھ رہے ہیں لیڈر اب اخبار نہیں‘ ٹی وی سکرین بناتی ہے‘ بس آپ کے ہاتھ میں مائیک ہونا چاہیے لوگ آپ کے پیچھے پیچھے ہوں گے“ بس لین دین کی کہانی بھی یہی شروع ہوتی ہے بہتر یہی ہے کہ چھوڑئیے یہ قصے کہانیاں‘ جب حالات ایسے ہوں گے تو فہرست بھی آتی رہے گی اور وضاحت بھی آتی رہے گی‘ لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوگا‘ ان دنوں پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ دکھایا جارہا ہے ارتغرل‘ یہ ڈرامہ کیا ہے؟ ایک مکمل تاریخ ہے اور ایسی تاریخ کہ ہم میں سے کوئی بھی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں‘ ارتغرل اصل میں تغرل لفظ سے آیا ہے جس کے معنی ہیں‘ شکاری‘ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ صحافت میں اس لفظ کی تعریف پر کون پورا اترتا ہے‘…………
 بس اتنا ہی کہنا ہے صحافت سچ بتانے کا نام ہے لوگوں کو آگاہ کرنے کا کام ہے یہ تفریح مہیا کرنے کا شعبہ نہیں ہے اس کے لیے ارتغرل کافی ہے سچ کی تلاش میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتاہے کئی صحافی اس راہ میں اپنی جان کی باز ہار گئے پاکستان ان ممالک میں شامل جہاں صحافت کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے اور ہر حکومت نے پریس کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی لیکن حکومتوں کومزاحمت بھی ملی ہے کڑوا سچ یہ ہے کہ ملکی صحافت نے سکھ چین نہیں دیکھا‘ پریشان صرف عامل کارکن ہی ہوا ہے‘ مالکان تو خیر کیا پریشان ہوں گے‘ کسی مالک کو کوڑے نہیں مارے گئے‘ یہ بھی عامل کارکن نے کھائے‘ کسی مالک کا چولہا تنخواہ نہ ملنے پر نہیں بجھا‘ یہ وقت بھی کارکن پر ہی آیا ہے‘ کوئی مالک بے روزگار نہیں ہوا‘ یہ دن بھی کارکن نے دیکھے ہیں‘ ہاں البتہ ہو یہ رہا ہے کہ اس شعبے میں اب دودھ پینے والے اور قربانی دینے والے بھی ایک ہی جگہ جمع ہوگئے ہیں‘ دودھ پینے والوں نے اسٹیج سنبھال رکھے ہیں اور بے روزگاری کاٹنے والے دردیاں بچھا تے اور تالیاں بجاتے ہیں‘ صحافتی تنظیمیں ایک سے دو ‘ دو سے تین اور اب ماشاء اللہ چھ سات ہیں‘ مذید تقسیم بھی ممکن ہے‘ تقسیم کا یہ قافلہ بڑھ رہا ہے لگ یہ رہا ہے کہ ملک کا میڈیا‘ صحافت اور عامل کارکن پیچھے رہ جائے گا اور صحافتی تنظیمیں بہت آگے نکل جائیں گی گزشتہ بیس سالوں کے دوران 140 سے زائد صحافی اپنی جان کا نظرانہ پیش کر چکے ہیں مگر یہ لوگ کسے یاد ہیں؟ سب وضاحتوں سے فارغ ہوں گے تو ان کی توجہ اس جانب ہوگی ناں‘ ہمیں اس کے باوجود کھرے پن کی تلاش ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :