صحافت کا ستون‘ الوادع ہوگیا

جمعرات 6 اگست 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

محترم جناب اطہر ہاشمی اب دنیا میں نہیں رہے‘ ہر انسان نے موت کا مزہ چھکنا ہے‘ اس سے کسی کو فرار حاصل نہیں‘ تمام مرتبے‘ رعنائیاں‘ رعب‘ منصب‘ یہیں رہ جائیں گے‘ ساتھ صرف اعمال جائیں گے‘ حقوق بھی دو طرح کے ہیں‘ ایک حقوق اللہ‘ اور دوسرے حقوق العباد‘ محترم جناب اطہر ہاشمی حقوق العباد کے معیار پر پورا اترے اور اپنی جان اپنے خالق کے سپرد کرچکے ہیں‘ حقوق اللہ کا معاملہ ان کے اللہ کریم کے درمیان ہے‘ لہذا وہ جانیں اور اللہ جانے‘ اللہ بہت رحیم اور کریم ہے‘ وہ غفور بھی ہے رحمان بھی اور ستار بھی ہے‘ اللہ نے بندے سے پوچھنا بھی حقوق العباد سے متعلق ہے اس میزان میں قبلہ اطہر ہاشمی کے لیے ان کے دوست احباب سب دعا گو ہیں اور گواہی دیں گے کہ وہ اللہ کا نیک بندہ تھا‘ وہ بہت کم پر راضی ہوجانے والوں میں تھا‘ چالیس پچاس سالوں کی صحافت میں کوئی لالچ اور دنیاوی رغبت انہیں جیت نہیں سکی‘ اللہ کے بندوں کے لیے اس کے دل میں رحم اور درد تھا‘ یہ لکھتے ہوئے وہ اب دنیا میں نہیں رہے سچی بات یہ ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ ان سے محبت بھرا تعلق ہمیشہ یاد رہے گا‘ ان کی بے مثال شفقت کبھی نہیں فراموش کرسکوں گا‘ میرا تو ان کی فیملی سے بھی تعلق تھا‘ ان کے دولت خانے پر بھی حاضری دی ہوئی ہے‘ ان کے صاحب ذادے کی شادی میں بھی شریک ہوا ہوں‘ اپنی پوتی کی پیدائش پر بہت خوش ہوئے تھے‘ کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا ستون ہے جسارت کے اطہرہاشمی تو صحافت کے ستون تھے‘ وہ ایسے ایڈیٹر تھے کہ ان کے گلے میں سونے کی چین نہیں دیکھی‘ کلائی میں قیمتی گھڑی نہیں دیکھی‘ ان کے پاس صرف قلم تھا‘ قیمت میں ہوسکتا ہے کہ بہت معمولی ہو‘ مگر قوت اوراثر میں اس قلم کا کوئی ثانی نہیں ہے‘ سگریٹ ان کی دوست تھی‘ بس یہ تھے اور سگریٹ‘ مغلیہ تاریخ بتاتی ہے کہ انارکلی کے پاس شہزادہ سلیم تھا‘ اس کی ایک کہانی ہے‘ مگر اطہر ہاشمی کے بعد صحافت اپنے شہزادہ سلیم سے محرم ہوگئی ہے‘ ان دنوں صحافت مشکل میں ہے‘ یہ مشکل کچھ اللہ کی جانب سے اور اسے ذیادہ انسانوں کی جانب سے ہے‘ منافع میں کمی کو نقصان کا نام دینے والے سیٹھ نے صحافت کا ماحول خراب کردیا ہے مگر اس طوفان میں اطہر ہاشمی جیسا انسان اور ایڈیٹر غنیمت تھا‘ انہوں نے کسی کارکن کے حلق کا نوالہ نہیں چھینا‘ بڑے بڑے مالکان‘ تیس مارخان قسم کے مدیر یہ کام کرکے کر جیت کے شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں میرا وطن عزیز اب اطہر ہاشمی جیسے مدیر سے محروم ہوگیا ہے انہوں نے میدان قلم کے شہسواروں کی بھیڑ میں نے حق اور سچ کی آواز بلند کی اللہ تعالیٰ ان کی علم دوست‘ انسانیت دوست تحریوں کو قبول فرمائے اور بارگاہ رحمت میں اجر دے آمین‘زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں درجہ بندی ہے یہ کرونا سے تو بچ جائے گی مگر بے روزگاری کے ہاتھوں نہیں بچ پائے گی انسان وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا جارہا ہے-اُس نے پرندوں کی طرح اُڑنا اور مچھلی کی طرح سمندروں میں تیرنا سیکھ لیا ہے مگر زمین پر انسان بن کر رہنا نہیں سیکھا انسان کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے‘ مگر اطہر ہاشمی اندر اور باہر سے ایک تھے یہی خصوصیات انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے مثبت شخصیت کی تعمیر میں صبر کی حیثیت اور اہمیت گویا عمارت میں ایک ستون کی طرح ہے جیسے ایک عمارت بغیر ستونوں کے تعمیر نہیں ہوسکتی اِسی طرح شخصیت صبروتحمل کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتی۔

(جاری ہے)

تعمیرِ شخصیت کے بنیادی اصول جن پر انسان عمل کرکے اپنی شخصیت کو سنوار سکتا ہیانسان کی زندگی میں منفی سوچ کا ایک خطرناک اثر یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کبھی کبھار ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے اطہر ہاشمی نے ہمیشہ دوستوں کو مثبت مشورے دیے مثبت سوچ سے انسان کی زندگی میں بیشتر بیماریوں کا امکان کم ہو جاتا ہے مشکلات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں اور زندگی میں کامیابی اور ترقی کا امکان بڑھ جاتا ہے اس کے بغیر بے مقصد انسان کی زندگی ایک بھٹکے ہوئے انسان کی طرح ہوتی ہے جو سمتِ سفر متعین نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کسی راستے نکل پڑتا ہے اور کبھی دوسرے۔

منزل کا تعین ہونا تعمیر شخصیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔با مقصد آدمی کے ذہن میں اپنی منزل کا تعین اور شعور ہوتا ہے۔اُسے پتہ ہوتا ہے کہ اُسے کس راستے سفر کرکے اپنی منزل تک پہنچنا ہے خود اعتمادی خود یقینی کا دوسرا نام ہے۔ اطہر ہاشمی میں یہ خوبی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ صحافت کے آغاز سے اپنے انجام تک وہ ایک ہی اصول پر رہے‘ کہ خوبی یہی ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے ‘یہ خوبی انسان کے بہترین اوصاف میں شمار ہوتی ہے۔

جس آدمی میں خود اعتمادی کی صفت ہو وہ بہترین انسان سمجھا جاتا ہے‘ ٹائم مینجمنٹ ایک ایسا ہنر ہے جس کے لئے مہارت کامیاب اور خوشگوار زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے مطالعہ اور علمی مہارت یہ سب خوبیاں ان میں تھیں جس طرح اناج اُگانے کے لیے پانی ضروری ہوتا ہے بلکل اُسی طرح کامیابی کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔مطالعہ کے ذریعے انسان اپنی شخصیت کو ایک نئے طریقے سے پروان چڑھاتے،نئی معلومات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے اور کچھ حاصل کرنے کے لیے منفرد طریقوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔

مطالعہ سے انسان کے دماغ میں نت نئے خیالات آتے ہیں اور یہ منفرد خیالات مستقبل میں انسان کی زندگی اور اُس کے کام پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔شخصیت تعمیر کرنے کا سب سے اہم ستون یہ ہے کہ انسان کو اپنے آج کے کام کو کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ انسان کا کل کبھی نہیں آتا۔کل کرے سو آج کر،آج کرے تو اب کر۔انسان کی تعمیر شخصیت اس کی وقتِ پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے‘ اللہ کریم ہمارے پیارے اطہر ہاشمی کے لیے اجر عظیم کا دامن وسیع کردے‘ آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :