مسکراہٹ نہیں ملے گی

بدھ 18 نومبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 آہ… ارشد وحید چوہدری بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے‘ ابھی عمر ہی کیا تھی‘ مگر موت عمر کہاں دیکھتی ہے‘ یہ نہ عمر دیکھتی ہے اور نہ دنیاوی رتبہ‘ بس جب زندگی کی ساعتیں مکمل ہوجائیں تو یہ آن پہنچتی ہے‘ یہ سال بہت بھاری ثابت ہوا‘ شاہد الرحمن گئے‘ قبلہ سیدسعود ساحر بھی چلے گئے اور اب ارشد وحید چوہدری بھی‘ سچی بات یہ ہے کہ یہ تینوں میرے لیے بہت محترم تھے‘ شاہد الرحمن اور قبلہ سعود ساحر تو ہمارے بزرگ تھے‘ ارشد وحید چوہدری کے ساتھ تو ہم عصری کا تعلق تھا‘ بہت ہی پیارا‘ مخلص اور محبت کرنے والا دوست تھا‘ جب بھی ملا مسکراہٹ اس کے چہرے تھی‘ اس کی کسی بھی اچھی رپورٹ پر اسے مبارک دی تو ہمیشہ انکساری سے جواب دیا‘ بہت شکریہ میاں صاحب‘
 پارلیمنٹ میں کسی اجلاس کی کوریج کا موقع ہو یا نیشنل پریس کلب میں ملاقات ہو ہمیشہ اس کی محبت یاد رہے گی‘ آج کے دور میں ہمیں محنت سے کام کرنے والے اخبار نویس بہت کم ملتے ہیں‘ مگر ارشد وحید چوہدری کی خوبی تھی کہ اس نے اپنی محنت سے نام بنایا‘ اپنی پہچان بنائی‘ وہ ہماری پارلیمانی رپورٹنگ کور میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا تھا‘ یقین نہیں آرہا کہ اب وہ ہم میں نہیں رہا‘ مگر موت بر حق ہے اور ہر ذی روح نے موت کا مزہ چھکنا ہے‘
بزرگوں کی کہاوت بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ
'' چار برتن جہاں ہوتے ہیں وہ کھڑکتے ضرور ہیں''
اسی بات کو اس طرح سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے:
''مل جل کر رہنے والے اکثر لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کر بیٹھتے ہیں''
جھوٹ، دھوکہ، تجسس، ٹوہ لگانا، بد گمانی، غیبت، برے القابات سے پکارنا ………… مگر ارشد وحید چوہدری میں صرف اور صرف عاجزی اور انکساری تھی‘ محبت تھی اور دوستوں کے لیے بے پناہ اخلاص تھا‘ ساری اخلاقی برائیوں سے وہ مکمل طور پر محفوظ تھا‘ وہ کمزور پر بھپتی کسنے والا نہیں بلکہ اسے آگے بڑھانے اور سہارا دینے والا تھا نفرت، حسد، جھوٹ، دھوکہ دہی، دکھاوا، اسٹیٹس کی دوڑ، مقابلے بازی کی آگ سے بھی بہت دور تھا‘ایسے افراد کردار اور اخلاق میں پختہ ہوتے ہیں اور میرا دوست ارشد وحید چوہدری بھی انہی میں سے ایک تھا‘ اس کا بچھڑ جانا جہاں ان کے خاندان کے لیے بہت بڑا نقصان ہے وہیں ہمارا اور ہمارے پریس کلب کا بھی بہت نقصان ہے‘ ہم بھی اس کے بغیر اب ادھورے ہیں‘ اس کا وجود ہمارے لیے غنیمت تھا‘ صبر، برداشت، میانہ روی اور رواداری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ وہ محنت اور برداشت کا ایک نمونہ تھا‘ نمود و نمائش سے بہت دور رہتا تھا‘
 نیشنل پریس کلب کے حالیہ انتخابات میں وہ واحد امید وار تھا جسے میں نے رزلٹ سے پہلے مبارک باد دی تھی‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اچھی طرح اس بات کا علم تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی کوریج کرنے والے تمام جرنلسٹ دوست اسے ضرور ووٹ دے رہے تھے‘ ارشد وحید چوہدری میں ایک خوبی دیکھی تھی وہ ہمیشہ جوابی وار سے گریز کرتے تھے انہیں کبھی منفی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ سنا‘ غیبت، چغلی، حسد، شکوے شکایات کبھی اس اس کے پاس سے بھی نہیں گزری‘
 نیشنمل پریس کلب کے صدر جناب شکیل انجم کا شکریہ کہ انہوں نے قبلہ سعود ساحر اور ارشد وحید چوہدری کے انتقال پر نیشنل پریس کلب کے پرم کو تین روز کے لیے سرنگوں کیا‘ پریس کلب میں ہونے والی تمام تقریبات منسوخ کیں‘ میری درخواست پر قبلہ سعود ساحر کی قبر پر نیشنل پریس کلب کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی‘ ایک اور درخواست ہے کہ
 اب نیشنل پریس کلب میں تمام مرحومین ارکان کے نام کے درخت لگائے جائیں‘ تاکہ ہم اپنے ان پیاروں کے ساتھ ان کی چھاؤں میں رہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :