
گیارواں بین الاقوامی کتاب میلہ
پیر 23 نومبر 2015

میر افسر امان
(جاری ہے)
۲
کی کتابیں، سی ڈیز، کارٹون اور دیگر مواد کثیر تعداد میں فروخت کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ قرآن پاک اور تفاسیر قرآن پاک کے بھی اسٹالز موجود تھے۔ سیرت رسول اللہ پر بھی کتابیں تھیں۔ دنیا کے مختلف علماء کی طرف سے لکھی گئی دینی کتابیں بھی فروخت کے لیے رکھیں گئیں تھیں۔ تاریخ، مذہب، فلسفہ ،ادب،فنون لطیفہ اور مختلف علوم پر کتابیں بھی تھی۔ نصاب کی کتابیں اور نصاب بنانے والے اداروں کے اسٹالز بھی موجود تھے۔ اس میں ہماری پسندیدہ اکیڈمی بک سنٹر( آئی آر اے) کا اسٹال بھی تھا ۔ غرض ہر قسم کے علم کی کتابیں اس کتب میلے میں موجود تھی۔اردو، انگریزی، سندھی کے کتابوں کے اسٹالز لگے ہوئے تھے۔ مستقل بیماری کے باوجودہم گذشتہ کئی سالوں سے اس کتاب میلے میں شرکت کر رہے ہیں ۔اپنے شوق کے مطابق کتابیں بھی خریدتیں ہیں۔ ہم نے بھی حسب سابق اس دفعہ اپنے درمیان والے بیٹے اور اپنی دو بہوں اور ان کے بچوں کے ساتھ میلے میں شرکت کی۔ہم نے اپنی ضرورت ہمارے بیٹے اور ہماری بہوں نے اپنی اور بچوں کی پسند کی کتابیں خریدیں۔ کالم نگار ہونے کی ناتے اس کتاب میلے کی ابلاغ کے لیے ہم ہر سال کالم بھی لکھتے رہتے ہیں۔کتاب دوستی کی وجہ سے ان کتابوں پر اپنے کالموں میں تبصرے بھی کرتے رہتے ہیں جو اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔غرض یہ ہے کہ اس اچھے اور نیک کام کی تشہیرہو اور ہمارے ملک کے لوگوں کو کتابوں سے محبت پیدا ہو جا ئے۔ ہمارے نزدیک کتاب بینی بہت کم ہو گئی ہے۔ لوگ ٹی وی اور فیس بک کے استعما ل کی وجہ سے کتابوں کی طرف کم ہی دھیان دیتے ہیں۔ ہم کئی سالوں سے منتظمین سے اپنے کالم میں درخواست کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے سارے صوبوں کے بڑے شہروں یا کم از کم صوبائی دارلحکومتوں میں ایسے ہی کتاب میلوں کا انتظام کیا جائے۔ یہ اس وقت کی ضرورت ہے مگر نہ جانے منتظمین کی کیا مشکل ہے کہ وہ یہ کام کئی سالوں سے نہیں کر سکے۔ خیر یہ تو وہی جان سکتے ہیں ہمارا کام درخواست کرنا ہے۔ اس دفعہ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ اس بین الاقوامی کتاب میلے میں صرف بھارت، چین اور ترکی ہی شریک ہوئے ہیں اس کتاب میلے کو صحیح بین الاقوامی بنانے کے لئے اپنے دوست ملکوں ،خاص کر اسلامی ملکوں کوبھی اس بین الاقوامی کتاب میلے میں شرکت کرنی کی دعوت دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان سے فنڈ حاصل کر کے ان ممالک کو خصوصی رعایت کی پیش کش کی جائے تو بہتر ہوگا۔صاحبو! جب مسلمان کتابیں لکھتے تھے، پڑھتے تھے تو اس وقت کی دنیا علم کی پیاس کے لیے سمر قند اور بخارا کی یونیورسٹیوں کی طرف رجوع کرتی تھی۔ اب جو قومیں کتابیں لکھتیں ہیں اورکتاب بینی کرتی ہیں تو لوگ لندن اور واشنگٹن کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے وقت کے کتب خانوں جو بغداد وغیرہ میں قائم کیے گئے تھے یاد رکھنا چاہیے جنہیں کتاب دشمن حملہ آور تاتاریوں نے مسلمان دشمنی میں جلا دیا اور دریا برد کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو پھر سے کتابوں کی طرف کی روجوع کرنا چاہیے اس میں ترقی اور آگے بڑھنے کا راز ہے جو اس راز کو پا گیا وہ آگے نکل گیا۔ ہمارے اہل علم اور حکومتوں کومغرب کی کتب کا اپنی مادری زبان اردو میں ترجمعے کروانے چایہیں تاکہ علم کی قوت سے مسلمان پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ بہرحال یہ کتاب میلہ وقت کی ضرورت ہے کراچی کے لوگوں نے اس سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ منتظمین بھی قابل مبارک باد ہیں۔ اللہ ہمارے کراچی اور پورے پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دے اور امن وسکون نصیب کرے آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.