مباحث خطبات ِاقبال

منگل 13 جولائی 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

مختلف حضرات کی طرف سے علامہ شیخ محمداقبال رحمہ اللہ حکیم الامت پر لکھی گئیں کتب اورخود اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کی اُ رحمہ اللہ ردو کتب ہماری لائیربیری میں موجود تھی۔پھر بھی اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کا۱۰/کتب جن میں۶/ فارسی اور۴/ اُردو کا مکمل سیٹ بمعہ تشریح مذید بھی حاصل کیا۔ہماری دلی خواہش ہے کہ اقبال رحمہ اللہ کی نثری کتب کو بھی حاصل کریں۔

ہم ”اقبال رحمہ اللہ قائد رحمہ اللہ مودودی رحمہ اللہ فکری فورم چلا رہے ہیں،اس لیے یہ کتب ریفرنس کے لیے ضروری ہیں۔ اللہ بھلا کرے قلم کاروان کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر ساجد خان خاکوانی کا انہیں نے ہمیں ”مباحث خبات ِ اقبال “ (تشریحات کے ساتھ ) جو پرفیسر داکٹر محمد عارف خان نے لکھی ہے، تحفتاً عطاکر کے اس کی کمی کچھ حدتک پوری کر دی ۔

(جاری ہے)

ابلاغ عام کے لیے اس کتاب پر تبصرہ قارئین کی نظر کرتاہوں۔


مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خاں صاحب کی یہ کتاب علامہ اقبال رحمہ اللہ کے سات خطبوں پر مباحث اور تشریحات پر مبنی ہیں۔مصنف کی تیس سے زاہد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ سال کا کچھ عرصہ برطانیہ میں گزارتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ تحقیقی اور کتابی دنیا لندن میں بیٹھ کر” مباحِث خطبات ِ اقبال“ تشریحات کے ساتھ، جیسی مشکل کتاب میں اقبال رحمہ اللہ کی نثر کی تشریح کرنے میں کامیاب ہوئے۔


 مصنف نے اپنی کتاب میں پہلے علامہ اقبال رحمہ اللہ کے تین خطبوں، خطبہ اوّل” علم اور مذہبی مشاہدات“ خطبہ دوم ” مذہبی مشاہدات کافلسفیانہ معیار“ اور خطبہ ہفتم” کیا مذہب کا امکان ہے“ ان تینوں خطبات میں مذہب کا بطور ایک ذریعہ علم کا بھر پور دفاع کیاہے۔ پھر خطبہ سوم میں ” ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دعا“ خطبہ چہارم ” انسانی خودی، جبر و قدر، حیات بعد الموت“ اور خطبہ پنجم ” اسلامی ثقافت کی روح“ کے متعلق ہیں۔

خطبہ ششم میں ”اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول“ ۔مصنف نے ان تمام خطبوں میں مغرب کی ترقی و فلسفہ کو اسلامی کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔مصنف یہ بھی لکھتے ہیں کہ اقبال رحمہ اللہ کے خطابات مغرب کی ترقی اور فلسفہ سے متاثر ہونے والے پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے ہیں۔ جو ترقی کی ساری راہوں کو اللہ کی طرف سے دیے گئے علم سے جوڑتے ہیں کے قائل ہیں۔


 راقم الحروف کو یا دآ رہا ہے کہ علامہ اقبال رحمہ اللہ ک کی ایک بات جو اُس نے کسی دوست کو کہی تھی۔ شورش کاشمیری نے اپنی کتاب” فیضانِ اقبال“ (تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم) میں کسی جگہ لکھا ہے کہ میرے اشعار کو سمجھنے کے لیے پہلے قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں۔ اِس میں شک نہیں کہ اقبال رحمہ اللہ مفسر قرآن اور حدیث ہیں۔ ”اقبال رحمہ اللہ کل کا شاعر ہے“۔

اقبال نے کہا تھا کہ میرا کلام باقی رہے گا(کتاب اقبال کے چند جوہر پارے صفحہ ۴۴)
 اب ہم ایک ایک کر کے کتاب” مباحث خطبات ِ اقبال“ میں بیان کردہ مصنف کی کاوش کو مختصر کرتے ہیں۔
اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ اوّل”علم و مشاہدات“ کے شروع میں مصنف نے اقبال رحمہ اللہ کی کتاب” ضرب کلیم“ کا شعر یہ درج کیا ہے ۔ یہ شعر اس خطبہ کہ مکمل شریع کرتا ہے :۔


زمانہ ایک، حیات ایک،کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری، قصہ، جدید، و قدیم
پروفیسرڈاکٹر محمد عارف خان کے مطابق اقبال رحمہ اللہ خطبہ اوّل” علم و مشاہدات“ میں علم کا جائزہ لیتا ہے۔کہتا ہے کہ مغرب نے جو مذیب سے ہٹ کر مادی ترقی ہے۔ اس مادی علم کو مذہب کے خلاف بغاوت قرار دیا تھا۔مغرب نے خدا کو چلینج کیا ۔گویا انسان اتنا طاقت ور ہو گیا کہ شعور کے لیے کسی اور کا محتاج نہیں۔


خطبہ دوم” مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار“ میں مصنف کے مطابق اقبال رحمہ اللہ مغرب کے فلسفوں کے بر عکس، مذہبیات و اسلامیت کے تحت تمام مذاہب کو علم کی ترقی و ترویج میں ایک ارتقائی کردار کرتے ہیں اور اسلام کو جدید موٴثر افکار کا ترجمان مانتے ہیں۔
خطبہ سوم ” ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دُعا“ میں مصنف اقبال رحمہ اللہ کے خطبہ کا تجزیہ کرتاہے۔

اللہ کی ذات یکتا ہے۔کن فیکون ہے۔ذات الہٰیہ کا علم ،علمِ جاریہ ہے۔ذات الہٰیہ کی قدرت ،طاقت اور آزادی مطلق ہے۔ ذات الہٰیہ نے پیدائش کا عمل کن سے شروع کیا جو اب بھی جاری ہے۔ذات الہٰیہ کی قربت کا ذریعہ عبادت ہے۔دُعا کو مولانا رومی کے اس شعر”گام آہو“ اور ناف ِآہو“ سے واضح کرتا ہے۔ ” ذاتِ الہٰیہ کا تصور اور حقیقت دعا میں اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ حضرت محمد کی آمد دراصل ذاتِ الہٰیہ کی تصوری تکمیل کا اعلان ہے۔

ذات الہٰیہ کی حقیقت کاا عتراف تو زندگی کے آغاز سی ہی کسی کسی نہ شکل میں موجود رہا ہے ۔حضرت محمد نے ذاتِ الہٰیہ کے وجود کا تصویری ذہنی نقشہ کو بھی حتمی شکل دے دی۔ خدا کو دیکھنا و پانا انسان کا اوّل و آخر مقصد رہا ہے۔ اقبال رحمہ اللہ اسے ” بال جبریل“ کے اس شعر میں بیان کرتے ہیں:۔
عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گرِ ازل! تیرا نقش ہے ناتمام ابھی
خطبہ چہارم” انسانی خودی، جبر و قدر،حیات بعدالموت“ کے متعلق مصنف لکھتا ہے کہ جدید نفسیات اور قرآنی فکر کے نفسیاتی تعینات و تجزیے کا ایک مفصل باب ہے۔

اس میں انسانی نفس کی حقیقت،زمینی دنیا کی حدود و دائرہ،اَن دیکھی دنیا کے اسرار حدودو رموز، حقیقتِ مطلعقہ کی جستجو و آرزو مضامین بیان کیے گئے ہیں۔
خطبہ پنجم ”اسلامی ثقافت کی رُوح“ میں مصنف لکھتا ہیں کہ اقبال رحمہ اللہ نے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ ثقافت کی تاریخ اور تاریخی اہمیت کا جائزہ پیش کیا۔ جب مسلم دنیابحیثیت اُمت وسعی علاقوں میں بطور قوم پسماندگی و غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔


خطبہ ششم” اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول“(الا اجتہادفی الاسلام) میں مصنف اقبال رحمہ اللہ کی کتاب“ بانگ ِ ِ درا“ سے اشعار کوٹ کرتے ہیں۔ جن کاآخری شعر ہے:۔
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
اچھا ہوتا کہ مصنف سب خطبوں کے شروع میں اقبال رحمہ اللہ کے شعر کوٹ کرتے جو اقبال رحمہ اللہ کی نثر کی ترجمانی کرتے ہیں۔

پہلے خطبہ کی طرح سارے خطبوں کے آخر میں حوالہ جات درج کر دیتے تو آیندہ تحقیق کرنے والوں کے لیے سہولت ہوتی۔
خطبہ ہفتم” کیا مذہب کا امکان ہے“ کو بھی مصنف اقبال رحمہ اللہ کی کتاب ”ضرب کلیم“ کے ایک شعر سے شروع کرتاہے:۔
”رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اُتر گیا جو ترے دل میں” لا شریک لہ“
اس خطبہ کا مخاطب برطانیہ کا جدید ذہن تھا۔

جو مذہب کو پیچھے چھوڑ کر حواس و سائنس کی نئی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا اور فلسفہ کے طالب علم شامل تھے۔مغرب نے مذہب کو علم کی دنیا سے خارج کر دیا۔مصنف لکھتا ہے کہ اقبال رحمہ اللہ کے نذیک انسانی زندگی کے تین مراحل ہیں ۔پہلا مرحلہ ایمان، دوسرا مرحلہ سوچ و فکر، تیسرا مرحلہ معرفت و ریاضت۔
 صاحبو! ہم نے شروع میں شورش کاشمیری کی کتاب سے ایک بات بیان کی تھی کہ اقبال رحمہ اللہ کہتا ہے کہ میرے کلام کو سمجھنے کے لیے پہلے قاری کو قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنا ہو گا۔

اسی لیے اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:۔
 قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
کتاب مباحث خطبات اقبال“اقبال رحمہ اللہ کے سات خطبات کی جزیات کے ساتھ تشریع کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اگر اقبال رحمہ اللہ کو کوئی سمجھنا چاہتا ہے تو اقبال کی دوسری کتب کے ساتھ، اس کتاب جسے میں” انساکلوپیڈیا آف اقبال“ کہتا ہوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اقبال رحمہ اللہ شناسوں کے لیے یہ کتاب ایک خزانہ سے کم نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :