ریاست مدینہ
بدھ 24 اپریل 2019
خلیفہ وہیں سے فوراً اپنے گھر ، تیز رفتاری سے پہنچے ، اپنی اہلیہ کو ہمراہ لیا اور کچھ ضروری سامان کے ساتھ واپس اسی خیمے پر پہنچے۔ اہلیہ کو اندربھیج دیا اور خود خشک لکڑیاں اکٹھی کرنے لگے، آگ جلائی اور باقی سامان نکال کر اس پر ہانڈی رکھ دی اور خود ہی سارا کھانا تیار کیا۔
(جاری ہے)
ظلم و نا انصافی ، حیوانوں سے بدتر 'انسانوں سے سلوک، غربت ، ننگ و افلاس ، لوٹ مار، بے رحمی اور لا قانونیت سے لتھڑی ریاست کو "ریاست مدینہ" کا برانڈ بنانے والو پہ حیرت ہے ۔ جس طرح اسلام کے نام پر ،ریاست کے حصول کے بعد' اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا۔ اسی طرح آج اس " برانڈ نام" کے تقدس کو پامال کر کے ،آپ کو مدنی ریاست کے والی ﷺ کے زریں اصولوں اور تعلیمات کے علاوہ ، اس میں ہر چیز نظر آئے گی۔ آپ ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں کی مثال لیجیے ، مقننہ، انتظامیہ و عدلیہ ، کیا آپ کو کہیں بھی ان میں رحم دلی، بھلائی، خیر خواہی، عوام کا درد، دیانت داری ، کمٹمنٹ ، یا کہیں بھی کسی مقام پر بھی اسلامی سوچ ، اسلامی تعلیمات ، حتی کہ انسانیت نام کی کوئی چیز بھی نظر آتی ہے ؟
ریاست کی اشرافیہ ، حکمران طبقہ اور ان کے ہرکاروں کے رنگ ڈھنگ ،طمطراق ، طرز زندگی میں ، کہیں بھی ، کوئی بھی ہلکی سی تشبیہ ، کوئی ہلکی سی جھلک بھی کہیں اسلامی نظام حیات کی نظر آتی ہے ؟
ریاست کی باگ ڈور چلانے والی انتظامیہ ، سر عام !سانحہ ساہیوال میں ایک مظلوم، معصوم ، بے گناہ اور نہتے خاندان کو دن دیہاڑے ، بیچ چوراہے کے ان کے جسموں کو ،عوام کے ہی دیئے ہوئے خون پسینے سے نچڑے پیسوں (ٹیکسوں)کی گولیوں سے، چھلنی کر دیتی ہیں اور اس بربریت پر، حکمران طبقے کے دلوں میں رحم کے آثار تک نظر نہیں آتے ۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں ، قوم کی مظلوم، معصوم بیٹیوں کے چہروں کو ،درندگی کے ساتھ آتشیں اسلحہ کے ساتھ ،چھلنی کر دیا جاتا ہے اوران کے بچوں اور پسماندگان کو آج تک ایک دفتر سے دوسرے دفتر ، ایک عدالت سے دوسری عدالت ، روزانہ ظلم کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ مگر ان کی داد رسی کے لیے عوام آتی ہے نہ کوئی ریاستی اہلکار ۔
آپ حکمران طبقہ کو چھوڑیے ، آپ اپنے ہی اردگرد عوامی سطح پر دیکھ لیجیے ، رحم دلی ، اخوت ، ایثار ، داد رسی و دلجوئی ناپید ہو چکی ہے ۔ بس چلتی پھرتی لاشیں ہیں ہر طرف، رحم سے عاری ، احساس سے محروم ، بے حسی و بے مروتی چار سو پھیلی نظر آئے گی، دفتروں میں ہر کوئی اپنے ہی ساتھی کی ٹانگ کھینچتا نظر آئے گا، تعلیمی اداروں میں نسلوں کے مستقبل کا سودا ہوتا ہوانظر آئے گا، مسجدوں میں فرقہ واریت کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں گی، بازاروں میں چور بازاری اور ملاوٹ سر عام ہو رہی ہو گی ۔ عدالتوں میں انصاف کے سوا' سب کچھ ہوتا نظر آئے گا۔ گوادر کے ساحلوں سے لے کر خنجراب کے کوہساروں تک ، ہر رنگ، ہر نسل، ہر ذات ، ہر فرقہ، ہر مذہب کا آدم زاد ، اس نظام سے ڈسا ہوا نظر آئے گا۔ اپنے اپنے کنویں کے اندر ، مینڈک کی طرح ٹر ٹراتا نظر آئے گا۔ نہ کوئی خالص انسان نظر آئے گا، نہ کوئی خالص شے ، ہر انسان اپنے غموں کا ماتم کرتا ، کسی کندھے کی تلاش میں نظر آئے گا، جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے، مگر 22 کروڑ انسانوں کی بستی میں 'کوئی ایک کندھا اسے میسر نہیں آئے گا۔
آپ سب صاحب شعور ہیں، صاحب فہم و عقل ہیں، آپ خود فیصلہ کیجیے، کیا یہ "ریاست مدینہ " ہے؟ کیا ہم مدنی ریاست بنانے کے اہل بھی ہیں ، کیا ہم ایسی مثالی ریاست کے، قابل بھی ہیں۔ سوچیے اور خود فیصلہ کیجیے!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد علی رضا کے کالمز
-
تین عورتیں تین کہانیاں
جمعہ 28 مئی 2021
-
بسم اللہ سے لا الہ الا اللہ تک
منگل 8 اکتوبر 2019
-
ریاست مدینہ
بدھ 24 اپریل 2019
-
دشمنی لاکھ سہی
بدھ 2 جنوری 2019
-
بزرگوں کا فیض
ہفتہ 29 دسمبر 2018
-
ممی ڈیڈی
جمعرات 20 دسمبر 2018
-
بہار آئی بہار آئی
پیر 19 نومبر 2018
-
غربت کا خاتمہ
جمعرات 18 اکتوبر 2018
محمد علی رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.