غربت کا خاتمہ

جمعرات 18 اکتوبر 2018

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

 ۱۷؍ اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ عالمی معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی بقاء غربت کے خاتمے پر ہی منحصر ہے، اس لیے عالمی سطح پر ہر سال اس دن کی مناسبت سے عالمی برادری،غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیتی ہے اور اس اہم مسئلے کے حل کے لیے سوچ و بچار کرتی ہے، شاید ہمارے حکمراں طبقے کے لیے یہ کوئی سنگین مسئلہ نہیں۔

اسی لیے، اس موقع پر بھی آپ کو جمہوریت کی کرامات  ' نیا اور پرانا پاکستان  کی  اصطلاحات اور عوام کے ووٹ کا تقدس کا بیانیہ ہی میسر آئے گا۔
 عالمی سطح پر غربت یا خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو جانچنے کے لیے ایک معیار مقرر کیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق اگر کسی شخص کی اوسط آمدنی 2ڈالر روزانہ  سے کم ہے تو اسے خطِ غربت سے نیچے تصور کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

یہ غربت کی عالمی اصطلاحی تعریف ہے۔ یہ بات ہمارے ذہنوں پر تو گراں گزرے گی لیکن حقیقت یہی ہے ۔  آپ اس    اصطلاحی تعریف کو رہنے دیں، غربت کی سادہ سی جھلک اپنے ارد گرد دیکھ لیں۔جب بھی کسی شادی بیاہ یا ہوٹل میں ہونے والی تقریبات میں، گوشت کی ہڈیاں اور غذائی کچرا باہر پھینکا جاتا ہے تو اس بچی کھچی ہڈیوں پر جھپکنے والے معصوم بچے اور انسان آپ کو غربت کی تعریف دکھا دیں گے۔


 غربت بلا شہ وطنِ عزیز کے مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ ہیں جنہیں پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی اور نئی جنگ لڑنا پڑتی ہے ۔ہماری سرکار کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک کی 60% ( ساٹھ فیصد) آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ غربت سے تنگ آئے بے حال اور بے آسرا لوگ اپنے جگر کے ٹکڑے اور انسانی اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں۔

انسانی اعضاء  کی خریدوفروخت  میں پاکستان دنیا کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔ لوگ بچوں سمیت خود کشی کرنے پر مجبور ہیں ۔ صرف پچھلے دو برسوں میں غربت کے باعث خود کشی کرنے والوں کی تعداد5000 (پانچ ہزار ) سے زائد ہے ۔
 حکومتیں آتی ہیں، چلی جاتیں ہیں؛ مارشل لا آتے ہیں، گزر جاتے ہیں؛ نہیں ختم ہوتی تو یہ غربت ختم نہیں ہوتی، نہ محرومی کم ہوتی ہے اور نہ زندگی آسان ہوتی ہے ۔

غربت کے باعث لاکھوں مائیں زچگی کے دوران ہی مر جاتی ہیں اور آج کے اس دورِ جدید میں بھی پیدا ہونے والے وطنِ عزیز کے 57% نونہال ،غذا کی کمی کی وجہ سے مکمل ذہنی اور جسمانی نشو و نما سے محروم ہو رہے ہیں۔ ملک میں   ڈیڑھ  کڑوڑبچے 'آج بھی غرت کے باعث اڈوں، بھٹھوں، ورکشاپوں اورکارخانوں میں کام کرنے حتی کہ کوڑا چننے اور گندگی اٹھانے پر مجبور ہیں۔

جن ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے تھا ان ہاتھوں میں اوزار ہیں۔ جن آنکھوں میں خواب ہونے چاہیے تھے ان آنکھوں میں تاریکی اور مایوسی ہے ۔ محرومی ، لاچاری اور افلاس کے ہاتھوں مارے ہوئے یہ وہ باسی ہیں جو زندہ رہنے کی بھی سزا بھگت رہے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں بھی بے بسی میں پکار رہی ہیں کہ ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا ،یاد نہیں۔
 عالمی مخزن                                (ورلڈ بینک     )کی رپورٹ کے مطابق ترقی پزیر ممالک میں شرخ غربت میں اضافے کی اہم وجہ معیشت کی کمزوری ہے ۔

اس کے مطابق معیشت کو مضبوط کر کے ،غربت کی شرح کو خاطر خواہ کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں 'غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے کاش ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ 2005 میں 41 فیصد ہندوستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جبکہ 2015 میں یہ تعداد ریکارڈ کم ہو کر تقریباً 7 (سات) فیصد تک گر گئی تھی ۔ (اس دوران ) تقریباً 23کروڑ ہندوستانی خطِ غربت سے نکل کر مڈل کلاس میں آگئے تھے۔

اسی طرح چین نے شرح غربت کم کرنے میں نمایاں کام کیا ہے۔ جو اپنے ٹھوس معاشی پالیسیوں کی بدولت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے 7 (سات) سالوں مین 6.5 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر ترقی کے دھارے میں شامل ہو گئے ہیں اور اگلے دس سالہ منصوبہ بندی میں اپنے ملک سے غربت کا مکمل خاتمہ ہو   جاۓ گا ۔
 مقام افسوس ہے کہ جب گزشتہ سالوںمیں، ہمارے پڑوس میں غربت کا خاتمے کے لیے ٹھوس اور ترجیحی بنیادوں پر کام ہو رہا تھا، ہمارے ریاستی خزانے کے ’’منشیِ قلمدان ‘‘دیار غیر میں اپنے زاتی  خزانوں کے انبار لگا را رہے تھے۔

      
 ضرورت اس امر کی ہے کم از کم اس غربت کے خاتمے جیسے بنیادی نقطے پر تمام سیاسی پارٹیاں ،تنظیمیں، حکومتی اور نجی ادارے باہم مل کر مشترکہ طور  پرکوئی ٹھوس، جامع پالیسی کا منصوبہ بنائیں اور اس کے اہداف کی حصول کی مدت طے کریں جس میں قلیل و طویل مدتی اہداف شامل ہوں، تاکہ آئندہ  آنےوالے سالوں میں ملک کو حقیقی معنوں میں خوشحال ، جدید ، پرامن اور غربت سے آزاد ملک بنایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :