ممی ڈیڈی

جمعرات 20 دسمبر 2018

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

بچپن میں گانا سنا کرتے تھے جس کے بول تھے: ”ہر شے بدل گئی ہے کہیں تم بدل نہ جانا“مگرجیسے جیسے زمانہ بدلا، زندگی ہی بدل گئی ، سماج بدل گیا، رواج بدل گیا ، روایت بدل گئی، نئی تہذیب نے انگڑائی لی، زندگی کا انداز، رنگ، سلیقہ اور قرینہ بھی بدل گیا۔ آج کا دور ،آج کا سماج اور آج کاانسان جدیدیت کی انتہا پر ہے۔ یہ ایک نیا زمانہ،نیا دور اور نئے صبح و شام ہیں۔

جدیدیت اور ٹیکنالوجی نے ہر رنگ کو بے رنگ اور بے رنگ کومصنوعی رنگریز بنا دیا ہے ۔
ایک وقت تھا، جب تہذیبی اور اخلاقی روایات کے زیرِ سایہ ، سماج اور نئی نسل کی تربیت ہوتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ ان روایات کی جگہ ٹیکنالوجی، سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے لے لی ہے ۔ پہلے مائیں اپنے بچوں کو لوریاں سناتی تھیں اور اللہ رسول کے ذکر سے ان کو بہلاتی تھیں اور آج کی مائیں ، بچوں کو موبائل،آئی پیڈ اور ٹیبلٹ پر کارٹون اور طرح طرح کی ٹیونز (Tunes) لگا دیتی ہیں اور خود فیس بک کے ذریعے شوہروں کی جاسوسی اور واٹس ایپ کے ذریعے محلے سے لے کر خاندان تک کی ،تمام چھوٹی بڑی خبروں کو”بریک“ کرتی رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

آج کی” جدید سوشل میڈیائی مائیں“ ایسی نسل کو پروان چڑھا رہی ہیں کہ جو غسل خانے میں بھی جاتے ہوئے موبائل ہاتھ میں رکھتے ہیں: اور اگر کوئی بزرگ یا بوڑھا ، ان” ممی ڈیڈی“بچوں سے پوچھ ہی لے کہ بیٹا! غسل خانے میں بھی موبائل ساتھ لے کر کیوں جا رہے ہو؟ تو یہ ممی ڈیڈی جنریشن بڑے اعتماد سے منطقی جواب دیتے ہیں! کہ جب تک بالٹی نہیں بھرتی ،تب تک کیا کریں گے؟
ا ور اگر کوئی ان سے پوچھ ہی لے کہ بیٹا یہ پاکستان کب بنا؟تو جواب ملے گا ،کہ ایک منٹ! گو گل سے سرچ کر کے بتاتا ہوں والدین پریشان ہیں اور گوگل پر بھی سرچ کر کر کے تھک گئے ہیں کہ بچوں کے مزاج میں کیسے بہتری لائیں؟وہ بچے جن کو من کے سچے بھی کہا جاتا ہے ، جن کے چہرے پھول کی کلیوں کی اور پتیوں کے طرح کھل رہے ہوتے تھے اب فیس بک، واٹس ایپ،انسٹا گرام ، ٹویٹراور سنیپ چیٹ کے تمام فیچرز استعمال کر کر کے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پریشانی کی وجہ یہ ہے ،کہ کب کوئی نیا کتے یا بندر والا فیچر آئے تو ہم اپنی اشرف المخلوقاتی کو کتے اور بندر کے ساتھ” بلینڈ “ (Blend )کر کے اپ لوڈ اور شیئرکر کے لائکس بڑھائیں۔
سیلفی کو تو آپ رہنے ہی دیں، یہ وہ جذبہ جنون ہے جس کے پیچھے کئی زندگیاں چلی گئیں ، لیکن” عشق سیلفی“سلامت رہے۔ کسی بھی تقریب میں چلے جائیں ، ساری کی ساری ممی ڈیڈی نسل سیلفی اور فوٹو شوٹ میں مصروف عمل نظر آئے گی۔

اب تو کوئی پروفیشنل فوٹو گرافر بھی فوٹو بنانے لگے تو جھٹ سے بولیں گے ، ٹھہریے ! میرے چہرے کی یہ look ٹھیک نہیں آتی ہے ، دوسری سائیڈ سے بیٹھ جاوٴں ، کارنر سے میرا اینگل لے کر بنائیں۔ فوٹو گرافر بیچارہ پریشان! ”ہیں اے کی!“ (یہ کیا؟)ایسی کارہ گری کا تو اس بیچارے کو بھی علم نہیں تھا۔ اور تو اور شیشے کی جگہ بھی موبائل نے لے لی ہے،سیلفی فیچر آن کیا، منہ کے ٹیڑھے میڑھے زاویے بنائے، زیادہ پوز ہونٹوں اور منہ کو ،بندروں کی طرح گول کرکے لیا جاتا ہے کیوں کہ ”ٹرینڈ“ کر رہا ہے ۔

کوئی ہنڈرڈ کلک کے بعد جو شاہکار بنا اسے بطور سیلفی ،شرفِ قبولیت بخشا،مزید پالش سنیپ شاٹ کے ذریعے اپ ڈیٹ کی، کتے کے کان ، گدھے کی ڈھال سے حسن کو جلابخشی اور پھر کمنٹس اور لائیک لینے کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا ۔
صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک، دن کے ہر حصّے کے ہر کام کا کوئی موقع رہ نہ جائے،لمحے لمحے کی سیلفی اور پوسٹ ان ممی ڈیڈی بچوں کی اس سوشلائی دنیا میں موجود ہے۔

بہت جلد وہ وقت بھی آنا ہے جب اس نسل کے وصیت ہو گی کہ میرے مرنے پر میری کفن اور دفن کے لاسٹ پوسٹ کو بھی اپ ڈیٹ کرنا۔ یہ وہی نسل ہے جو علمائے کرام کو بھی کنفیوژ کیے بیٹھی ہے کہ قبلہ ! یہ تو بتاے، آپ کے مطابق جنت میں سب آسائشیں ہوں گی؟وہاں موبائل اور نیٹ بھی ہو گا کہ نہیں؟
ہماری اس نسل کی سوشل میڈیا پر فرینڈز اورs Folower کی تعداد تو ہزاروں میں ہے مگر ان کا حقیقی دوست کوئی بھی نہیں۔

یہ اندر سے بہت اداس ہیں ، بکھرے ہوئے اور مضطرب ہیں۔ لیکن اس جدید کاری کی مصنوعی دنیا میں ان کا اپنا تو کوئی بھی نہیں، نیٹ کے ذریعے بڑھنے والے یہ رابطے،یہ دوستیاں اور یہ رشتے ، کچے دھاگے جیسے ہیں، بہتے پانی پر مکان جیسے ہیں، صحرائی مٹی سے بنے گھروندے جیسے ہیں ، جنہیں بس ایک ہوا اور ایک لہر بہا کے لے جائے گی۔
خدارا !اپنی نسل کو سنبھالیے ، کچھ دیر کے لیے اپنا نیٹ اور موبائل بند کر کے اپنے بچوں کو سینے سے لگائیے ،ان کی تنہائیوں اور اداسیوں میں اپنی شفقتوں ، محبتوں اور قربتوں کے دیے جلائیے ، انہیں اپنے پاس بلائیے اور ان کی زندگیوں کو علم و ہنر سے روشن کیجیے۔ دیر مت کئجیے، شایددیر ہونے سے کہیں بہت اندھیرنا ہو جائے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :