بزرگوں کا فیض

ہفتہ 29 دسمبر 2018

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

بغداد وہ شہر ہے جس نے تاریخ کے صفحات پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ بنو عباس کے خلیفہ ابو جعفر المنصور نے  اس شہر کی بنیاد رکھی اور اسے دنیائے  علم و فن کا مرکز بنایا۔ یہ دنیا کا پر امن اور پر سکون شہر تھا۔ 775 ءسے لے کر   934 ء    تک ، یہ آبادی کے لحاظ سے 'دنیا کا سب سے بڑا شہراور علم و دانش کا مرکز بھی تھا۔ یہ وہی شہر ہے جس میں خلیفہ ہارون الرشید اور مامون نے دنیا کا عظیم ترین ”دارالترجمہ“ جیسا پر شکوہ اور بے مثال علمی مرکز قائم کیا، جہاں علم و حکمت کی قدرو قیمت کا یہ عالم تھا کہ مترجموں اورمحققین کو کتابیں تول کر، ان کے وزن کے برابر سونا'    بطور معاوضہ دیا جاتا تھا۔

پھر تاریخ کے اوراق اس شہر کا نوحہ بھی لکھتے ہیں جب 1207 میں منگولوں نے اس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کیا۔

(جاری ہے)

خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا اور اس شہر کو خاک و خون اور انسانی لاشوں کا مسکن بنا کر عبرت کی دردناک داستان رقم کی گئی۔
عالم اسلام میں اس شہر کی عظمت کے مقام و متربہ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر عظیم القدرہستیوں نے اس شہر میں قیام فرما ہو کر ، دنیائے عالم میں 'اپنے علم و فن کا نور بکھیرا۔

جابر بن حیان، الخوارزمی ، الکندی، الرازی ، امام غزالی ، ابو نواس، سعدی ، امام طبری، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف جیسی جلیل القدر شخصیات  نے  یہاں بسیرا فرمایا ۔
گردشِ ایام سے افقِ کائنات پر ایسی مایہ ناز ہستیوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی علمی ، روحانی اور متبرک شخصیت بھی اسی شہر میں جلو  ہ   بار ہوئی کہ جن کے نام کی برکت سے ' آج بھی بغداد کی گلیوں میں روحانیت کی خوشبو مہک رہی ہے ۔

کشورِ ولایت کے یہ درخشاںآفتاب ' جنا  ب   شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ،محبوب سبحانی ہیں۔ آپ کے فیصِ وجود سے صرف بغداد ہی نہیں بلکہ کائنات کا ہر مقام، روحانیت و معرفت سے مطہر ہوا۔ امام احمد رضا نے شاید اسی مقام کی عظمت پر کیا خوب کہا تھا کہ:
 سورج اگلوں کے چمکتے تھے ،چمک کر ڈوبے
افق نور پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
آپ ؓیکم رمضان 470 ھ کو شمالی فارس کے قصبے گیلان میں پیدا ہوئے اور 11 ربیع الثانی 561 ھ کو وصال فرمایا۔

اسلامی کیلنڈر کے مطابق ہجری سال کے مہینہ ” ربیع الثا نی      “ کے یہ ایام ، آپ سے وابستہ لاکھوں معتقدمین ، یوم وصال کے حوالے سے 'خصوصی عقیدت و ارادت کے جلوؤں سے معمور ہو کر 'مناتے ہیں۔ آپ شریعت وطریقت کے مجمع البحرین تھے ۔ آپ وہ کشورِولایت تھے کہ جن کے تبحر علمی اور درجہ ولایت کی عظمت و عقیدت کا اہتمام ، ہر دور کے الیاءو علماءنے کیا۔

آپ کی ذات سے وابستہ کئی کرامات تھیں جو زبان زدِ عام ہیں اور ہمارے خطباء و واعظین کا پسندیدہ ترین موضوع بھی ہے جس کی وجہ شاید :
    تیری یادوں سے وابستہ میرا روزگار بھی ہے
    لیکن یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ اولیاءکرام کی شخصیات ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہوتی ہیں اور ان جہات میں سے کرامت صرف ایک جہت ہے۔ آج کے پر فتن دور میں ضرورت اس امر کی ہے ہم ان کی تعلیمات اور ملفوظات کی طرف  بھی  متوجہ ہو کر 'معاشرے میں ایک علمی، روحانی ، فکری، اصلاحی اور معاشرتی بھلائی کے ضمن میں'اپنا کردار ادا کریں ۔


حضرت شیخ ؒ کی تعلیمات نے انسانیت کے لیے درخشاں اصول چھوڑے ہیں ، آپ علم کے رسیا تھے، آپ نے فرمایا دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّى صِرْتُ قُطْباً (میں علم حاصل کرتا گیا، یہاں تک کہ قطبیت کے مقام پر فائز ہو گیا)  ، آپ علم اور علم والوں سے خصوصی انس رکھتے تھے۔
آ پ وسیع العلم اور کشورِ ولایت کے مقام پر فائز ہونے کے باوجود بہت عاجزو انکسار ، شفیق و ملنسار ، کریم النفس اور محبت و احترام سے ہر خاص و عام کو پیش آتے اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے عام سے عام شخص کو بھی سینے سے لگا لیتے ۔


آ پ نہ   توکسی جاہ و منصب کی خوشنودی کے لیے کہیں جاتے اور نہ ہی کسی وزیر یا بادشاہ  کی رفاقت کو پسند فرماتے۔ ہمیشہ اللہ کے ذکر و فکر سے آنکھیں اشک باراورر قلب معمور رکھتے۔ راتوں کو طویل قیام اور قرآن کی تلاوت آپ کا معمول تھا، آپ ہمیشہ عفوو درگزر سے کام لیتے، ہر ایک سے اخلاق سے پیش آتے، آپ کا چہرہ انور' روحانیت سے تابندہ تھا۔
آپ کی زندگی ایک جہد مسلسل کی داستان تھی، آپ نے مجاہدات و تصرفات اور علمی و روحانی علوم کے حصول کے لیے بھوک ، پیاس اور غریب الوطنی برداشت کی۔

آج کے پیشہ ور مجاوروں اور شیخ کے نام کو ڈھال بنا کر وقت کے حکمرانوں کے کاسہ لیس بننے والوں کوکاش !آپ کا یہ فرمان یاد رہا ہوتا کہ جب سلاطین ِ وقت نے ' سیم و زر اور مال و دولت سے بڑے تھیلے ”نذرانے“ کے طور پر پیش کیے ' تو آپ نے فرمایا ”لوگوں کا خون چوستے ہو اور مجھے آ کر یہ ہدیہ کرتے ہو“   ،کاش ایسے نذرانے لینے اور دینے والے ، اور آپ سے عقیدت و محبت کا  دم بھرنے والے، آپ کے نام کی مالائیں جھپنے والے، خود کو آپ کا روحانی وارث کہلانے والے ،آپ کی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھیں اور شیخ کی وصیت کے الفاظ کا تعویذ بنا کر اس کو سوز جاں بنا لیں ،آپ نے فرمایا:” ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو، خدا کے سوا کسی کے خوف کو دل میں جگا نہ دو، اپنے نفس کی مرغوبات کو اللہ کے سپرد کر دو، صرف اسی پر بھروسہ کرو، صرف اسی سے مانگو، اس کے سوا کسی سے آس نہ لگاؤ اور فرمایا: "جو دل کا تعلق خالق سے قائم کر لے مخلوق اس کے تابع ہو جاتی ہے “
حضرت واصف علی واصف نے فرمایا تھا۔


” صرف بزرگوں کی یاد منانے سے بزرگوں کا فیض نہیں ملتا، بزرگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے بات بنتی ہے "۔ شیخ کی عقیدت سے وابستہ ، تمام عام وخاص، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ، روحانیت کے فیوض و برکات سے،خود کو اورمعاشرے کو سنوارکر ،اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں ۔
آخر میں سلطان العارفین کی شیخ کے بغداد سے عقیدت کا اظہار:
بغداد شہر دی کی اے نشانی، اچیاں لمیاں چیراں ھو
تن من میرا پرزے پرزے ،جیوں درزی دیاں لیراں ھو
اینہاں لیراں دی گل کفنی پا کے ، رلساںسنگ فقیراں ھو
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو،کرساں میراں میراں ھو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :