تین عورتیں تین کہانیاں

جمعہ 28 مئی 2021

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

کاش! یہ تین کہانیاں،صرف تین کہانیاں ہی ہوتیں۔ مگر افسوس ! حقیقت پرمبنی ،یہ ہمارے آج کے   رویوں ، معاشرت اور سماج کی  عکاس ہیں۔
پہلی کہانی ! میرے آبائی شہر گجرات کے علاقہ،  تھانہ کڑیانوالہ کی ہے۔ یہ  جازبہ سحرکی داستان حقیقت ہے! جس کی شادی، اس کے خالہ زاد، محمد شفیق کے ساتھ ،بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔اللہ نے اس جوڑے کو ایک بیٹی سے نوازا، جس کا نام ارفع ہے اور وہ دوسری جماعت کی طالبہ ہے ۔

12 اپریل کی رات محمد شفیق، اپنے  گھر کے صحن میں سویا ہوا تھا ، کہ چند  نا معلوم افراد اچانک  رات کی تاریکی میں آئے اور اس معصوم و بے گناہ شفیق کو قتل کر دیا، بظاہر یہ ایک اندھا قتل کا کیس تھا، اور مقتول کی کسی  سے دشمنی یا عناد بھی نہیں تھا، لیکن ناحق قتل کیسے چھپ سکتا ہے ؟ چنانچہ پولیس کو دوران تفتیش انکشاف ہو اکہ مقتول کی بیوہ مسماۃ جاذبہ کا ،شادی سے پہلے علی بہادر نامی لڑکے کے ساتھ معاشقہ تھا، جو آج کل دبئی میں مقیم ہے۔

(جاری ہے)

  محترمہ ! اپنی ارینج میرج سے ناخوش تھی اور فلمی  و   ڈرامائی انداز میں اپنے شوہر کو راستے سے ہٹا کر ، اپنے آشنا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن شوہر کو راستے سے ہٹانے کا جو راستہ اس نے اختیار کیا وہ ایک اور دلخراش کہانی ہے ۔ خاتون نے اپنے گھر کے قریب ہی رہنے والے نوجوان علی رضا عرف چراغا کو اپنے حسن    وفریب کے جال میں پھنسا لیا ، جب چراغا مکمل طوراس پر فریفتہ ہو  گیا تو اس  نے اسی کے ذریعے  ہی، شوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

  وقوعہ کی رات، چراغا نےنشہ آور نیند کی گولیاں خاتون کو پہنچائیں جو اس نے  ، اپنے شوہر کے کھانے میں ملا دیں، جب شوہر گہری نیند سو گیا تو، اس کا نیا دوست دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا، دونوں نے مل کر سنگدلی سے، بے گناہ شفیق کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ ایک ہنستے بستے گھر کو ، اس گھر کے چراغ ہی نے آگ لگا دی !    ایک ہوس نے تین گھر اجاڑ دیئے۔

اب خاتون خود اور اس کا نیا  شکار دونوں حراست میں ہیں، جب کہ  اس کا  پہلا عاشق  و آشنا ، جس کے ایماء پر یہ سارا قبیح منصوبہ بنایا گیا تھا ، وہ بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ  جائے گا۔
دوسری کہانی راولپنڈی کے علاقے تھانہ چونترہ کی ہے !    8 مئی ، 2021ء کو محسن جاوید اپنی بیوی ثناء کے ساتھ، موٹر سائیکل پر کہیں جا رہے تھا کہ اچانک ان پر فائرنگ ہوئی ، محسن تو وہیں دم توڑ گیا، جب کہ  اس کی بیوی کو بے ہوشی کی  حالت میں ہسپتال داخل کرادیا گیا۔

یہ بھی ایک اندھے قتل کا کیس تھا اور  کیس  کا کوئی سرا بھی ملزمان تک نہیں پہنچ رہاتھا۔ لیکن وہی بات ! ناحق خون آخر کب تک چھپا رہتا؟   دوران تفتیش آشکار ہوا کہ مقتول کی بیوی کے ،اپنے محلے کے ایک لڑکے تیمور کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔دونوں نے مل کر اس قتل کا منصوبہ بنایا، اور ایک چار سالہ بچے کی ماں نے آخر کار اپنے آشنا کے ساتھ مل کر ، اپنے ہی شوہر کو انتہائی سفاکی سے قتل کر دیا۔


تیسری کہانی !   چونیاں کے علاقے ، تھانہ کنگن پور کی ہے ، جہاں پولیس کو کھیتوں میں سے ایک سر کٹی لاش ملی۔ یہ بھی ایک اندھا قتل کا کیس تھا، لیکن ناحق قتل کیا گیا خون خود اپنا سراغ بناتا گیا۔  پولیس کارروائی کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لاش نذیر نامی شخص کی ہے جو قریبی علاقے کا رہائشی تھا، دوران تفتیش جب موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیاتو مقتو ل کی بیوی کو شک کی بناء پر دائرہ تفتیش میں شامل کیا گیا، جس سے یہ راز کھلا کہ اس کےبابر نامی شخص سے ناجائز تعلقات تھے جس کی شوہر کو بھی خبر ہو گئی تھی۔

اس سے پہلے کہ اس کا شوہر کوئی قدم اٹھاتا ، خاتون نے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے ہی شوہر کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے ۔ سر ، بازو   اور دھڑ کو مختلف جگہوں پر  دبا دیا تاکہ یہ جرم چھپا رہے ، لیکن گناہ کا سلسلہ آخر کب تک چلتا ، آخر انجام آ ہی گیا۔
    یہ واقعات! صرف تین کہانیاں نہیں  بلکہ ہمارے سماج اور معاشرے کا وہ آئینہ ہے جسے ہم روز اپنے اردگرد دیکھتے ہیں،مگر عبرت پکڑنے کی بجائے ، بس ایسے لوگوں کو لعن طعن کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔

ایسی بیسیوں کہانیاں!  ہمارے میڈیا کی زینت بنتی ہیں، جنہیں ہمارے چینل بارہ مصالحے ڈال کر ،ٹوئسٹ بنا کر پیش کرتے ہیں اور ہم فقط تفریح  طبع کے لیے ان کو دیکھ کر، چینل بدل لیتے ہیں۔ افسوس ! ہم سب شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ جنگل کی آگ یہ نہیں دیکھتی ،یہ درخت شیشم کا ہے یا کیکر کا، یہ سب درختوں کو چھوٹی چھوٹی جڑی بوٹیوں سمیت ،جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔


ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ کیا ایسے واقعات،یونہی  ہوتے رہیں گے! اور ہم بس ایسے ہی، دوسروں پر لعن طعن کرتے رہیں گے؟ کیا یہ صرف ایک کلاس ، ایک طبقہ یا کسی قوم قبیلے کا مسئلہ ہے ؟ کیا یہ بے راہ روی صرف میڈیا منڈی کی زینت کے لیے ہے؟ کیا اس اندھیر نگری اور بے راہ روی کا کوئی حل نہیں ؟ کیا یونہی خاندانوں کے خاندان تباہ ہوتے رہیں گے؟ ایسے بہت سے سوالات کے جوابات ،ہمارے سماج کو سوچنے ہوں گے۔


ہمیں اپنے بچوں کی گھر، سکول ، مسجد محلے کی سطح پر تربیت کرنا ہو گی۔ اگر یہ یہ تربیت ہم نے نہ کی، تو ہماری نسلیں یونہی فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر ،اپنی ذہنی ، فکری اور  خیالی دنیا بناتے رہیں گے!  جہاں سوائے تباہی کے اور کچھ بھی نہیں !
آئیے، سب مل کر اپنے اپنے دائرہ کار، اپنے اپنے اختیارات اور وسائل میں رہ کر اپنے خاندان کی تریت کا آغاز کریں ۔

ترقی کےجدید ذرائع کو آپ روک نہیں سکتے، لیکن ہمیں  یہ سمجھنا ہو گا کہ   اس   ٹیکنالوجی کے درست استعمال کے فوائد، جبکہ غلط استعمال سے صرف اور صرف  تباہی ہے!  ایٹم بم نے صرف محدود علاقے کو تباہ کیا تھالیکن مین  سڑیم میڈیا  اور سو شل میڈیا  کا غلط استعمال، پوری دنیا کی اخلاقیات ، احساسات اور پاکیزہ جذبات کو تباہ کر رہاہے۔
آئیے ! اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے  اور ہمارے بچوں کی کہانی بھی،کہیں  میڈیا کی زینت   نہ بن جائے،  اپنی نسلوں کی اخلاقی تربیت پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دیں اور ایک پاکیزہ معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :