بہار آئی بہار آئی

پیر 19 نومبر 2018

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

ربیع الاول اسلامی کیلنڈر کے مطابق ہجری سال کا تیسرا مہینہ شمار کیا جاتا ہے۔یوں تو ہر اسلامی مہینے کی کوئی نہ کوئی خاص فضیلت ، نسبت اور مقام ہے ،لیکن ربیع الاول وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کی عظمت و مقام کو ضبط ِتحریر میں لانے کے لیے، قلم کو ہزار بار مشک و گلاب سے دھو کر قابلِ تحریر بنایا جائے تو پھر بھی شاید اس ماہِ مقدس کے شایان شاں نہ ہو پائے۔

یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کی آمد پر گلشنِ انسانیت میں بہار آ جاتی ہے ، عندلیبیں اور قمریاں بھی نواسنج کرنے لگتی ہیں، عشاق کے دل وارفتگی میں مچلنے لگتے ہیں اور  وہ محبت سے سرشار ,چشم نم کے دھاروں سے وضو کر کے ,عقیدت میں تڑپنے لگتے ہیں۔      یہ    وہ ماہِ مبارک        ہے کہ جس میں ہوا ئیں              اور     فضائیں بھی وجد آفر    یں ہو کر ،چاروں اقصا ئے عالم میں  ،بہار آئی     بہار آئی   '   پکار  اٹھتی ھیں       ۔

(جاری ہے)

ہر طرف جشنِ بہاراں ہیں اور غلامانِ رسالت شاداں و فرحاں ہیں ،کیونکہ یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس میں وہ ہستی تشریف لائی جو باعث تخلیق کائنات ہے ، جو محسنِ انسانیت ہے، جو معدن انوار ، مخزن اسرار   ، مولائے غمگسار      اور     دو عالم کے تاجدار  ہیں۔، جو     مخزنِ علم و حیا، معدن جودو سخا  اور مصدر انبیاء بھی ہے۔
اگر اس کائنات میں خدا کی نعمتوں کا شمار کیا جائے تو یقیناً بعثتِ محمدی ہی سب نعمتوں سے افضل و اعلیٰ نظر آتی ہے ، خدا نے جب اپنا تعارف کرایا تو کہا کہ میں  سارے عالمین کا رب ہوں اور اپنے محبوب کا تعارف بھی اس شان سے کرایا کہ اے محبوب تجھے بھی میں نے سارے جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین بنا کے بھیجا ہے۔

تمام جہانوں سے مراد صرف یہ زمین و آسمان نہیں بلکہ تمام عالم ِ جمادات ، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات اور عالم انس و جان بھی شامل ہیں۔ آپ رحمۃ اللعالمین اس جہان میں تشریف لائے تو انسانیت کو معراج بخشی۔ آپؐ نے قحبہ گوئی کا خاتمہ کیا، غلامی کی حوصلہ شکنی کی، نسلی تفاخر کومٹایا،عرب و عجم کو یکجا کیا، خاندانی وجاہت اور حسب و نسب کی بجائے تقویٰ کو انسانیت کی فضیلت کا معیار بنایا۔

آپ کی شفقت ، بردباری، جمعیت ، اخلاص، ہمدردی ، صبرو تحمل حلیمی اور دستگیری کا دامن، اپنوں ،بیگانوں اور غیروں کے لیے بھی یکساں تھا۔ آپ کی کریمی اور دستگیری انسانوں تو کیا ، شجرو حجر، نبادات و جمادات اور حیوانات کے لیے بھی اپنی مثال آپ ہے۔
آپ کے سامنے سے ایک اونٹ گزرا، دیکھا اس کا پیٹ بھوک سے سکڑا ہوا تھا، فرمایا! ان بے زبانوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، انہیں اچھا کھلاؤ،پلاؤاور پھر اچھی سواری کرو۔

آپ کی حیات طیبہ نے، زندگی کو زندگی کے حقیقی معنوں سے آشکار کیا، گناہوں اور شرک سے لتھڑے ہوئے دل آپ کی اک چشم کرم سے پارسا بن گئے، آپؐ کے دشمن بھی آپؐ کے اخلاق و اطوار ، بندہ نوازی، دستگیری اور خندہ پیشانی کے گرویدہ ہو کر آپؐ کی مقدس صورت کے پروانے ، آپؐ  کی سیرت کے رسیا، آپؐ کی زلفوں کے اسیر اور آپؐ کے نقشِ قدم کو اپنا کعبہ سمجھ کر اپنی جبینِ نیاز جھکانے والے بن گئے۔

آپؐ نے فرش پر بیٹھ کر عرش پر حکمرانی کی، آپؐ کی انگلی اٹھی تو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور آپؐ کا دست رحمت دیکھ کر سورج پلٹ آیا۔آپ نے ایسی دستگیری کی  کہ دراقدس پر صدا لگانے والا کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹا اور آپ ؐ تو آپؐ ،آپؐ کے دربار اقدس کےبوریا نشینوں نے  بھی بھکاریوں کو شہنشاہ بنا دیا۔ وہ بیٹیاں جن کو وقت پیدائش ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا،آپؐ نے ان کو رحمتوں کا نشان بنا دیا ۔

غرض کہ آپ کی چشم کرم نے تمام جہانوں اور زمانوں کو سیراب اور  مالا مال کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانیت  کی فلاح و ہدایت کے لیے بہت سے انبیاء اور رسل کو بھیجا اور ہر ایک کو خاص کمالات و معجزات بھی عطا کیے۔ کسی نبی کو حسن و جمال تو کسی کو جاہ و جلال، کسی کو سلطنت و ملک تو کسی کو جودو نوال،  کسی کو علم و حکمت تو کسی کو رفعت و عظمت کی دولت ِ لازوال ،مگر جب خاتمِ النبیؐین کو بھیجا تو تمام انبیاء و مرسلین کے کمالات و معجزات کوایک  یکجا ذات میں بھیجا، حسن و جمال، جاہ و جلال، جودو نوال ،ہر کمال میں انہیں بے مثل و بے مثال بنا کر بھیجا۔


آپؐ کی ہر ہر ادا، آپؐ کی صورت و سیرت، ذات و صفات اور آپ کے جسم اطہر کا بال بال سراپا کمال ہے اور ہر کمال بھی بے مثل و بے مثال ہے ، حسان بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی بات جھومتے ہوئے بول گئے:
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرءاً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ
اور بلبل شیراز سعدی نے تو یہ کہہ کر قلم ہی توڑ دیا کہ :
یَا صاحِبُ الجَمال و یَا سَیِدُ البَشر
مِن وَجھِکَ المُنیر، لَقَد نَورَ القَمَر
لا یُمکِنُ الثَنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُہ
بَعد از خُدا بزرگ تُوئی قصّہ مختصر.
یعنی اے حسن و جمال کے مالک آقا، اے نوعِ انسانی کے سردار ، آپؐ کے روئے منیر سے چاند بھی نور کی بھیک مانگتا ہے اور بلا شبہ چاند کو بھی آپ کے نور سے ہی روشنی ملی ہے ورنہ چاند کی حقیقت ہی کیا ہے اور آپؐ کی مدح و ثنا کما حقہ تو شاید ممکن ہی نہ ہو بس مختصر یہ کہ خدا بزرگ و برترکے بعد صاحب محترم اور سب سے زیادہ باعث تکریم آپ ہی کی ذاتِ اقدس ہے ۔

آئیں اس ماہِ مبارک کی مبارک ساعتوں میں ہم بھی عہد کریں کہ جس نبی ِ محتشمؐ کے امتی ہونے اور جس کی عقیدت و محبت کا دم بھرنے کا ہم اظہار کرتے ہیں ہم بھی اس کے بتائے ہوئے راستے پر لوٹ آتے ہیں ، اس کی بتائی ہوئی بندہ نوازی اور خندہ پیشانی کو اپنا لیتے ہیں ۔ آئیں ہم بھی اس کے حکم کے مطابق یتیموں اور بے کسوں کا سہارا بنتے ہیں اور دردمندوں کی تسکین کا باعث بنتے ہیں ۔

آئیں ہم بھی اپنی تمام نفرتوں ، عصبیتوں ، محرومیوں اور عداوتوں کو بھول کر اس پیغمبرِ اعظم کے اسوۃ حسنہ پر چلتے ہوئے یکجا و متحد ہو کر صادق و امین ہو کر، پیکر عجز و انکسار ہو کر اس ماہِ مبارک کی مبارک ساعتوں میں اس شہنشاہ خوش خصال، پیکر حسن وجمال، دافع رنج و ملال، صاحب جودو نوال، رسول بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم   کی بارگاہ میں کروڑوں درود و سلام کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :