دشمنی لاکھ سہی

بدھ 2 جنوری 2019

Mohammad Ali Raza

محمد علی رضا

جدید  طرزِ حکومت میں ، عالمی سطح پر  تقریباً دنیا کی تمام ریاستیں ، اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے ،اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہیں ۔یہ مفادات کسی بھی  ریاست کے سیاسی،معاشی، ثقافتی، سماجی اور مذہبی مفادات  اور عوامل کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس امر پر متفق  ہیں کہ کسی بھی ریاست کی ترقی کا انحصار اس کی کامیاب اور مستحکم خارجہ پالیسی اور عالمی برادری میں اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے پر ہوتا ہے ۔


جغرافیائی محل وقوع کی بدولت ، پاکستان ایسے خطے میں موجود ہے جو عالمی طاقتوں کا مرکز ہے ۔ایک طرف چین  ہے جو دنیاکی ابھرتی ہوئی حقیقی معاشی سپر پاور ہے تو دوسری طرف افغانستان، جو صدیوں سے "خطہِ جنگ" اور تمام بڑی طاقتوں کی "جنگی لیبارٹری " بنا ہوا ہے ۔

(جاری ہے)

اسی بنا پر جیسے ہی عالمی سطح پر کسی بھی خطے میں پیش و رفت یا اونچ نیچ ہوتی ہے ، خارجی سطح پر اس کا اثر براہ ِراست پاکستان پر ہوتا ہے ۔

یہاں خارجہ پالیسی ، سفارت کاری، جغرافیائی محل  وقوع یا ان سے متعلقہ مسائل پر بحث کرنا مقصود نہیں،بلکہ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنے خارجی مسائل کے حل ، عالمی سطح پر تغیر پزیر عالمی بساط اور اس کے جنوبی اشیاء پر اثرات اور مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ، ایک واضح، ٹھوس ، جامع اور حقیقی ریاستی کر دار کی طرف آتے ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم  کرنا ہو گا کہ امریکہ ایک  سپرپاور ہے،جبکہ اس کے برعکس چین جو ہمارا پڑوسی بھی ہے ، وہ مستقبل کی سپر پاور ہے۔ ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان "سینڈوچ " بننے کی بجائے  ہمیں درمیانی راستہ نکالنا ہو گا۔ ہمیں اپنے ماضی سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیے۔ آزادی کے بعد  ایک آزاد اور مستحکم ریاستی خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی بجائے، ہم  اس وقت کی دو بڑی عالمی طاقتوں ، سوویت یونین اور امریکا کے درمیان فٹ بال بن گئے۔

سوویت یونین کو "ڈاج" دیا اور امریکی گول میں پہنچ گئے، اس کا خمیازہ 1971 میں دو لخت ہونےکی شکل میں ملا۔ شاید تاریخ دوبارہ اسی صورتحال کو  reverse    کررہی ہے ۔ ایک طرف ہم چین کی دوستی کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف امریکہ کا بھی پہلو دبائے بیٹھے ہیں۔ ہمیں آج کی دنیا کو سمجھنا ہو گا۔ آج کے جدید سیاسی نظام میں کوئی آپ کا حقیقی دشمن ہے نہ حقیقی دوست ۔

ہر ریاست اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے "دوستی کے ہوتے ہوئے دشمنی" اور دشمنی کے ہوتے ہوئے دوستی" کا فارمولا اپنا رہی ہے ۔ اس کی مثال ہم چین – امریکا تعلقات سے لے سکتے ہیں۔ امریکا اور چین، دو بڑی عالمی طاقتیں بظاہر حریف ہیں۔ سفارتی معاملات میں شدیدتناؤ کے باوجود بڑے پیمانے پر باہمی تجارت بھی کر رہے ہیں، جبکہ ہم ماضی میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان پھنسے ہوئے تھے اور اب اسی طرح چین اور امریکہ کے درمیان کیک بنے ہوئے ہیں۔

حالانکہ چین نے کبھی یہ تقاضا نہیں کیا کہ ہم تجارتی سطح پر امریکہ سے دور رہیں۔ یہ ہماری اپنی ہی ایجاد کردہ فلاسفی ہے جو دور جدید کی سیاست میں کسی سطح پر بھی ناقابلِ عمل ہے ۔ اگر چین اور امریکہ شدید تناؤ کے باوجود 305 بلین ڈالر کی باہمی تجارت کر کے اپنے اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرسکتے  ہیں تو ہمیں بھی ان ونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے ریاستی مفادات کے حصول کے لیے بہتر تعلقات  استوار کر کے اپنی ریاستی مشینری کو مستحکم کرنا چاہیے۔


سی پیک کی بدولت چین اپنے سٹرٹیجک مفادات کے حصول کےلیے ، ہر سطح پر پاکستان کے ساتھ ہے مگر جغرافیائی محل وقوع اور افغانستان سے پر امن فوجی انخلا کے لیے ، امریکہ کو بھی ہماری ضرورت ہے ۔ ہم اپنی اس پوزیشن اور صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے ، امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی پیش رفت بڑھا کر ، اپنی معیشت اور بیرونی تجارت کو مضبوط کر سکتے ہیں۔

یہ فارمولا ہم پاک- بھارت تعلقات پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارت 126   بلین ڈالر سے زائد ہے۔ بھارت نے اپنی مضبوط خارجہ پالیسی اور مستحکم عالمی سفارت کاری کے ذریعے  اپنی معیشت کو مضبوط اور  مستحکم کیا ہے ۔ جبکہ امریکہ کا اہم اتحادی ہونے کے باوجود ، ہماری امریکہ کے ساتھ باہمی تجارت صرف 6.4 بلین ڈالر تک محدود ہے ۔

نہ ہمارا مالی نقصان قبول نظر، اور نہ 80 ہزار قیمتی جانوں کے نقصان کا احساس، اندریں صورتحال ہمیں ماضی کے برعکس یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ نظریاتی ، سرحدی اور مسابقتی اختلافات اپنی جگہ  پر، اگر چین شدید ترین امریکی مخالفت کے باوجود 305 بلین ڈالر کی تجارت کر کے اپنے ریاستی معاشی سسٹم کو مستحکم کر سکتا ہے تو ہم بھارت کے ساتھ اپنے معاشی مفادات کے لیے اپنی پالیسی  Re- structure  کیوں نہیں کر سکتے ۔

بھارت چین کا سب سے بڑا دشمن ہے اس کی باوجود اس کا چین کے ساتھ تجارتی  حجم 100 بلین ڈالر ہے جبکہ ہمالیہ سے بلند دوستی ہونے کے باوجود ہم      صرف سات بلین ڈالر تک محدود  ہیں۔
بھارت۔ چین تعلقات اور چین –امریکہ تعلقات میں بظاہر شدید تناؤ  اور عسکری سطح پر شدید ترین مخالفت کے باوجود ، ان ممالک کی باہمی تجارت یہ ثابت کرتی ہے کہ دورجدید میں عالمی سطح پر ریاستی تعلقات کی بنیاد، معاشی مفادات ہیں۔

بجائے اس کے کہ ہم عالمی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور اپنی سسکتی  معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ، اپنی خارجہ پالیسی کو   Trade –Friendly کریں، ہم آج بھی " گگلی پالیسی" (میڈ بائے قریشی) پر عمل پیرا ہونے پر تیار ہیں۔
ریاستی اندرونی مسائل اپنی جگہ ایک  حقیقت ہیں، اور یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنےاندرونی مسائل بشمول امن و امان ، سیاسی تناؤ کمزور معیشت ، غربت  و جہالت اور کمزور جمہوریت کو  سیدھی پٹری پر گامزن نہیں کرتے ، خارجی سطح پر اہم کامیابی کاحصول ممکن نہیں ہوگا۔

ہمیں عالمی سطح پر جتنے  چیلنجز کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کا "شافی نسخہ" ، اپنی پالیسیوں کو ری سٹرکچر اور سٹریم لائن کرنا ہے ۔ ہمیں  حالات کی سنجیدگی  اور تبدیلی کو گیرائی اور گہرائی سے سمجھنا ہو گا ۔ نئی حکومت معرض ِوجود میں آ کر اپنے "ہنی مون" پیریڈ  سےبھی لطف اندوز ہو چکی ہے ۔ اب وقت ہے کہ خارجہ پالیسی کو طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ازسر نو تشکیل دے کر اس پر دلجمعی سے عمل پیرا ہوا جائے۔

ہماری بدقسمتی کہ چین کے سوا، ہمارے ہمسایہ ممالک سے حالات کشیدہ ہیں۔قریبی ملحقہ سرحدی ممالک سے تناؤ کے باعث ہم عالمی برادری  میں اپنے پاؤں نہیں جما سکتے۔  صرف بھارت سے روایتی اختلافات کے باعث ، ہم اقوام عالم سے منہ موڑ کے سفارتی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے ، اس وقت بھارت سلامتی کونسل اور نیوکلیر سپلائرز گروپ کا رکن بننے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے، درمیان میں رکاوٹ صرف چین  ہے۔

بھارت اپنی وسیع مارکیٹ چین کے لیے کھول کر ، سفارتی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں ہے اور ہمارے پاس ما سوائے چین کے اور کوئی بھی مضبوط بیرونی سہارا نہیں، لہذا ہمیں موجودہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے ، بہتر سفارت کاری کے ذریعے آگے بڑھنا ہو گا۔ نظریاتی اختلافات اور معاشی مفادات ، دونوں کو عالمی سطح پر اس طرح چلانا ہو گا  کہ ریاستی سالمیت پر بھی حرف نہ آئے اور ریاستی مفادات کا حصول بھی ہوتا رہے اور یہ صرف اور صرف بہترین سفارت کاری پر ہی منحصر ہے، بقول ندا فاضلی:
دشمنی لاکھ سہی ختم نہیں کیجیے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ،ہاتھ ملاتے رہیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :