بہار کے دنوں میں وبا۔۔۔!

بدھ 1 اپریل 2020

Mohammad Ammar Ahmad

محمد عمار احمد

عجیب طرح سے بہار آئی ہے۔پھول کھِل رہے ہیں،روِشوں سے  اٹھتی مہک ہواکے جھونکوں سے چمن کو معطرکررہی ہے۔یہ میلے لگانے کے دن تھے،خوشی ومسرت سے جھوم جھوم جانے کے دن تھے مگریہاں ایک الگ رسم چلی ہے کہ محصور رہاجائے۔ اِک ان دیکھی شے انسانوں کے در پَے ہے۔کتنے ہی گُل اِس لیے مسکرارہے ہیں کہ کوئی اُن پرفریفتہ ہو مگر اُنھیں کیاخبر کہ انسان کوجان کے لالے پڑے ہیں۔

بہت خود غرض ہے یہ مخلوق ،اِسے مان ہے کہ ہم ہیں تو جہاں ہے سو اپنی صحت کو،خود کو زیادہ ضروری جانتا ہے  کہ کلیاں پھر بھی جوبن پر آجائیں گی۔خآک کا یہ پُتلا جسے غرورِ شرف ہے  سرِ دست اپنی عافیت  کو سبھی رنگوں پرترجیح دے چکا ہے۔
وبایوں پھیلی ہے کہ بستیاں ،شہر، کوچہ وبازار سنسان وویران۔

(جاری ہے)

عشُاق کو یوں تڑپایا جارہے کہ مرکز ہائے انوار وتجلیات بند کردیے گئے ہیں ۔

  لوگ  یہ سوچ کر خوف زدہ ہیں  کہ مر گئےتو  اقربا کندھاتک نھیں دے پائیں گے کہ چار لوگ ساتھ چل نھیں سکتے۔
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
غالؔب کی خواہش ڈیڑھ  صدی گزرنے کےبعدانسانوں پر جبراََََ  غالب کردی گئی ہے۔ قدرت نے بھی کیا دن دکھائے کہ تیسری دنیا کے پس ماندہ لوگ جنھیں دووقت کی روٹی میسر نھیں اور مادی ترقیوں میں چاند تک رسائی  حاصل کرنے والے سبھی بے بس ہیں ۔

طبقاتی تفریق کو خالق کی ناانصافی سمجھنے سمجھنے والے قدرت کے اس انصاف پر حیرت زدہ ہیں۔موت امیر وغریب نھیں دیکھتی ،وبا ترقی و پس ماندگی  کی تفریق پر دوحرف بھیج رہی  ہے ۔ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں ۔
دنیابھر میں سوچ بچار کی جارہی ہے،تجربات کیے جارہے ہیں کہ توڑ کیسے کیاجائے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ۔ سرحدوں سے ماورا اور عقائد سے بالا ہوکر ایک دوسرے کی مدد کی جارہی ہے۔

وطنِ عزیز میں بھی ریاست کے سبھی ادارے عوام کی خدمت پرمامور ہیں ۔  ذمہ داری نبھانے کی غرض سے اشیائے خوردونوش کی فراہمی  کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگ اپنے تئیں نیکی کمانے کی نیت سے اپنی استطاعت کے مطابق عطیات  بانٹ رہے ہیں  کہ مشکل کے یہ دن مل کر کاٹ لیے جائیں تو اچھا ہے۔ ہمدردی واخوت  کا جذبہ انسان کو انسان کے کام آنے کی طرف راغب کررہاہے۔


کچھ مسائل مگر ہمارے سامنے ہیں ۔ عوام قانون کی پاس داری تو کیاکرتی "مُرغا" بننے کی مشق کرنے لگی ہے۔لوگ ماننے کو نھیں دے رہے کہ یہاں کوئی وباپھیلی ہے جو بے احتیاطی کی صورت میں جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔لایعنی مباحث ہیں جن پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ۔اغیار کی سازش کہہ کر سر پر آئی کو جھُٹلایا جارہاہے اوراحتیاط کو وہم و فتور قراردے دیاگیاہے۔

دائیں اور بائیں بازو لفظی سنگ باری پر اُتر آئے ہیں ۔ ایک پر الزام ہے کہ سبب تم ہو  اوردوسرے پر طعن ہے کہ تم میں دَ م خم ہی نھیں کہ علاج کی کوئی صورت ڈھونڈ نکالو۔
دفعہ    144 کا نفاذ ہواہے تو خلاف ورزی پر  جرمانہ یاسزا کی بجائے عوام کی تذلیل کی جارہی ہے۔آئین سے روگردانی   کی انتہا یہ ہے کہ "مرغوں" کی تصاویر اور  ویڈیوز بناکر تشہیر کی جارہی ہے۔

ادارے قانون کی پاس داری نھیں کریں گے تو عوام کالانعام سے کیا امید کی جائے ۔؟ ایسی ہی معمولی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو پھر ہمیں ساہیوال کی سڑکوں پر ریاستی بدمعاشی دیکھنی پڑتی ہے یا راؤانوار جیسوں کودندناتا دیکھ کر کڑھنا پڑتا ہے۔عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ ریاستی سطح پر اٹھائے گئے اقدا م  ان ہی کی بھلائی کے لیے ہیں ۔ ہر جاننے والا شخص نہ جاننے والوں کوبتائے ۔

ادارے قانون کی پاسداری  یقینی بنانے کے لیے قانون ہی کو مدِ نظر رکھیں  اس اہم فرض کو کھیل تماشہ  نہ بنائیں ۔
وطن ِ عزیز کے تمام طبقات کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے پیش آمدہ صورت حال سے نکلنے کی راہ تلاشنی ہوگی۔ مذہبی و سائنسی ماہرین  دونوں کی آرا اہم ہیں ۔ایک رجوع اللہ کی ترغیب دے رہاہے تو دوسرے کو دوادارو کی صورت نکالنے پرتوجہ کرنی چاہیے۔

ہمیں آپس کی بجائے اُس صورت حال سے لڑنا چاہیے جس کا ہمیں سامنا ہے۔ فقہی مباحث، نظریاتی عناد ، سیاسی جھگڑے اور دوسرے متنازعہ امور صدیوں سے ہیں اور صدیوں جاری رہنے ہیں ۔ اِن سب کو کسی اور وقت پر اٹھارکھتے ہیں ۔ اِس وقت ہمیں  باہمی احترام وبرداشت  کے گوشہِ عافیت میں پناہ لینی چاہیے۔ہمیں خیال کرنا چاہیے اُن لوگوں کا جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں ،جن کی زندگی پہلے سے بھی مشکل ہوگئی ہے۔

ایثار وقربانی کے اِس وقت میں ہمیں  سخا وت و محبت کی راہ پرچلناچاہیے ۔ رب تعالیٰ کی قدرت  پر ایمانِ کامل رکھتے ہوئے،اُس کی  ذات کی طرف رجوع  اور  احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہمیں ناگہانی آفت سے نمٹناچاہیے۔
لغویات و بے معنی مباحث اور تماش بینی کی بجائے ان تعطیلات کو بھی کسی مثبت انداز سے گزارناچاہیے۔ وقت کی یہ ساعتیں جو جبراََہمیں فرصت کے طور پردی گئی ہیں انھیں آئندہ کے لیے مفید بناناچاہیے۔

ہرشخص اپنے مثبت شوق و ذوق کے مطابق  ان گھڑیوں کو گزارے۔بہار کے اِن دنوں میں اپنے گرد کھِلے پھولوں ،دھیمے سےمُسکراتیِ کلیوں اور شاداب درختوں کے ساتھ رہیے۔اُن سے اپنا رشتہ مضبوط کیجیے اور اِن پر بسنے والے پرندوں کا دھیان رکھیے۔ یہ بُراوقت اللہ تعالیٰ کی رحمت  سے ٹل جائے تو وقت کی یہ شکایت نہ ہوکہ اُسے بے قدری وبے اعتنائی سے کاٹاگیا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :