مشکوک کردار۔۔۔!

منگل 22 ستمبر 2020

Mohammad Ammar Ahmad

محمد عمار احمد

ہم سمجھتے ہیں کہ پہاڑوں سے اُترا پانی  سنگلاخ وادیوں سے چھن کر آتا ہے اور جب صحرا میں پہنچتا ہے تو ریت پانی کی کثافت کوجذب کر لیتی ہے ۔ اکثریت کو بصیرت  کی آنکھ عطا نہیں ہوئی کہ وہ پانی کے گدلے پن کو دیکھ سکے ۔ روانی جاتی رہے تو جوہڑ بنے پانی سے اُٹھنے والی بُو سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہ ظاہر بہتا پانی اپنے ساتھ کیاکچھ لایاہے۔

خیر ! یہ بھی غنیمت ہے کہ دیکھنے اور سونگھنے کی حِس باقی ہے۔
ہم کہ خوش نما نعروں سے بہلاے جانے والے لوگ! ایک رو میں بس بہہ جاتے ہیں۔آج کل ہم ایک بارپھر دومنظر اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں ۔ مقدس شخصیات کے حوالے سے اُٹھنے والی ایک نئی تحریک جس میں ماضی کے ایسے کردار شامل ہیں جو بہت حد تک باصفا کہلائے جاسکتے ہیں ۔ کچھ ان میں مگر اہلِ جُبہ ودستار بھی موجود ہیں جواِن باتوں کو کبھی اہم نھیں سمجھتے تھے ۔

(جاری ہے)

وہ فرماتے ہیں کہ " ہمیں اندازہ نھیں تھا کہ یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔ "
معاملہ اہم ہے کہ چوک اور چوراہے پر اگر کسی کے  مقدسات  پر تبراکیاجائے تو ردِ عمل پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے ۔ ہماری عُمر ماہ وسال سےہوتے ہوئے قریباََ صدی تک پہنچنے کو ہے مگر ہمیں جینے کا قرینہ نہیں آیا ۔ ہم آج بھی ایک دوسرے کے لیے موذی ہیں۔ کون جانتا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو کس نام سے ، کس انداز سے پکارنا ہے ۔

کسے یہ سلیقہ ہے کہ مخالف سے مخاطب ہونا ہے تو انداز کیا ہو۔! ہمیں سکھایا ہی نھیں گیا بلکہ ہمیں سیکھنے ہی نہیں دیا گیا ۔
ہم نے ایک جلوس نکالنا ہے تو ضروری ہے کہ باقی لوگوں کو گھروں میں قید کردیاجائے ۔ ہم نے چوراہے سے گزرنا ہے تو لازم ہے کہ اس چوراہے کو آنے والی گلیاں بند ہوں ۔ ہماری زبانیں آگ نہیں زہر آلود دھواں فضا میں چھوڑتی ہیں  کہ دھیرے دھیرے سماج میں زہر پھیلتا جائے  ۔

آگ لگتی  ہے تو اسے قابو کرنے کے سو طریقے ہیں ۔ زہر کے تریاق کے لیے متاثرہ حصہ کاٹنے کے سوا کوئی صورت نہیں ہوتی اوریہ بات ہم میں سے اکثر جانتے ہیں سوزہر اُگلتے ہیں ۔
مُحرم الحرام سے پہلے شروع ہونے والے مذہبی مباحث میں ہم نے بہت سوں کویہی زہر اُگلتے دیکھا ۔ دل افسردہ ہوئے ، جذبات کوٹھیس پہنچی اور منتظررہے کہ ریاست کسی بھی صورت حال میں وطن کو نقصان دہ صورت حال سے بچانے کے جتن کرے گی ۔

کچھ نہ ہوا تو عشرہِ محرم گزرتے ہی جلسے جلوس اور احتجاج کاسلسلہ کراچی ، اسلام آباد ملتان اور لاہور سمیت کئی چھوٹے بڑے شہروں میں شروع ہوا۔ حکومتی حلقوں سے صدائیں آنے لگیں کہ یہ بھارت کی سازش ہے ۔
 کچھ لوگوں کا گمان ہے کہ یہاں کے طاقت ور حلقے حکومت سے مایوس ہوکر ایک ایسی فضا بنانا چاہتے ہیں کہ انتظامی سطح پر مزید مسائل پیش آئیں ۔

آنکھ اٹھائی تو سجتے ہوئے اسٹیجوں پر کچھ اہلِ دستار نظر آئے جن کی آنکھ گزشتہ چالیس سالوں میں اب آکے کھلی ہے ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو ان سرگرمیوں سے " تائب " ہوئے تھے لیکن موجودہ صورت حال نے انہیں پھر اس اسٹیج پر لاکھڑاکیا جہاں سے کچھ خطرناک قسم کی اشتعال انگیزی لوگوں کی سماعتوں کو متاثر کرتی ہوئی دِل میں جااُترتی ہے ۔
 فرقہ وارانہ سرگرمیوں  سے دور  درس گاہ یا خانقاہ میں بیٹھنے والے یہ کردار سڑکوں پر آئے ہوئے ہیں ۔

کسی کی نیت پر شک نھیں مگر ماضی میں مشکوک کردار کے حامل لوگ بڑھ چڑھ کر جوش  وولولہ سے خطرہ نما مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگیں تو کہانی سمجھنے والے لوگوں کی نگاہوں میں ضرور کھٹکتے ہیں۔
دوسرا منظر نامہ سیاسی ہے ۔ یہاں دیکھیے تو پچھلے اڑھائی سالوں میں مسلسل پسِ پردہ رہنے والے یا پسِ منظر سے ہٹادیے جانے والے چہرے سامنے آنے لگے ہیں ۔

ذرائع ابلاغ پر ان کی " ملک دشمن " تقریر براہِ راست نشر ہوتی ہے باوجود اس کے کہ وزیر صاحب نے اُسے ملک کے لیے بُراشگون قراردے رکھا تھا ۔ تشکیک پسند لوگوں کی نظریں کہیں سے ایسا ثبوت تلاش کرنے میں مصروف تھیں کہ شک کو یقین میں  بدلا جاسکے ۔
 عالی جاہ سے کل جماعتی  کانفرنس سےچارروز قبل کی ایک ملاقات کی خبر اخباروں کی زینت بنتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں عسکری اداروں سے نالاں ہیں کہ آپ نے ملک کو نااہل قیادت کے ہاتھ میں دے دیا ہے ۔

ہمیں آپ سے یہ توقع ہر گِز  نھیں  تھی۔ خفیہ ادارے کے سربراہ کی موجودگی میں کیے گئے شکوے شکایتوں کا ایک ہلکا سا جوابی بیان جاری ہوا کہ ہماراسیاست سے کوئی تعلق نھیں ۔کیسا اطمینان بخش جواب ہے۔!  
ہم ایسے سیاسی کارکن یہ سوچ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی میزبانی میں کی گئی کُل جماعتی کانفرنس سیاسی حوالے سے اہم ہے یا پھر سپہ سالار کی میزبانی میں ہونے والی کُل جماعتی نشست زیادہ مؤثر۔

کیا وہ ایک ملاقات اس کل جماعتی کانفرنس پر اثر انداز ہوئی یا اُسے نظرانداز کیا گیا ۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں کوئی ایسا ہے بھی جس میں اُس ملاقات کو نظر انداز کرنے کی ہمت ہو۔!یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں کردار مشکوک ہیں اور منظر بھی دھندلایا ہوا۔!
بہتے ہوئے دریا کی تہوں میں موجود گدلے پن کو دیکھنے والی آنکھیں کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی اور سوال کا جواب بھی تلاش کرلیں گی۔ کچھ  نے صاف نظر آنے والے پانی کے جوہڑ بننے پر بُو محسوس کرنے کے بعد ہی گدلے پن سے آشنا ہونا ہے ۔ اکثریت  مگر وہ ہے جو بُو کو بھی کوئی اچھا نام دے کر جوہڑ کے کنارے شامیں گزارا کریں گے اور یہی قابلِ رحم طبقہ ہے ۔! 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :