رہبرِ ترقی و کمال۔۔۔!

ہفتہ 9 مئی 2020

Mohammad Ammar Ahmad

محمد عمار احمد

وطنِ عزیز کواول روز سے قحط الرجال کے سبب شدید مشکلات کاسامنا رہا۔ معتبر مؤرخین کی رائے میں بانیِ پاکستان کی نااہلی کے سبب دورانِ ہجرت فسادات کاسامنا کرنا پڑا۔۔مہاجرین کی آباد کاری ایک اہم مرحلہ تھا،عوام کی مشکلات کاکھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد چند عظیم لوگوں کے میں "ڈیفنس" جیسا عالی شان منصوبہ پنپنے لگا اور موقع پاتے ہی اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا گیا۔


بانیِ پاکستان کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اُنھیں جلد رخصت کرانے کے انتظامات اور اُن کے رفیق خاص لیاقت علی خان کو رُتبہ شہادت پرفائز کرانا بھی قومی خدمت کے ضمن میں لکھاجاتاہے۔بعد کے دنوں میں نااہل سیاسی قیادت نے ملک کو نقصان پہنچانے کی بہت کوشش کی۔سرسکندر مرزااورجنرل ایوب خان جیسی مخلص عسکری قیادت نہ ہوتی تو وطنِ عزیز سبزہِ نودمیدہ کی طرح صفحہِ ہستی سے مٹ جاتا۔

(جاری ہے)

انہی محبِ وطن لوگوں نے ابتدائی ایام میں پاکستان کو آئین جیسی گنجلک کتاب سے بچانے کی ہرممکن کوشش کی۔آئین ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ بھلے لوگوں کوکام کرنے سے روکتا ہے۔فوجی قیادت نے ہمیشہ یہ چاہا کہ اُن لوگوں کی خواہشات کااحترام کرتے ہوئے آئین بنایا جائے۔ اسی مقصد کے لیے سیاسی قیادت کے بنائے آئین میں رد وبدل ضروری سمجھاجاتا ہے یا سارا آئین ہی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجاتا ہے۔

جنرل یحیٰ خان نے فوج کے اسی کردار میں تسلسل برقرار رکھا اور بنگال بچانے کے لیے آخری حدتک گئے مگر نام نہاد عوامی راہنما نے "اُدھر تُم اِدھر ہم " کا نعرہ لگا کر مصالحتی عمل کو معطل کردیا۔پاکستان توڑنے والے اسی مجرم ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ عرصہ عظیم مسند پر رہ کر اُس کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ملحد سُرخوں سے تعلقات بڑھائے اورحقیقی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے عوام میں سیاسی شعور بیدارکرنے میں لگے رہے۔

بھٹوصاحب کی اس غیر سنجیدگی کودیکھتے ہوئے عظیم اسلام پسند جرنیل ضیاء الحق نے اُنھیں نہ صرف گھر بھیج دیا بلکہ پھانسی کی سزادلوائی تاکہ آئندگان کے لیے عبرت کا سامان موجود ہو۔
ضیاء صاحب کادور ملک کے لیے زریں دور رہا،فحاشی وعریانی کے خلاف سرکاری سرپرستی میں کام ہوا۔پڑوسی ملک میں جنگ چھڑی تو ہرطرف سے جذبہِ جہاد کے تحت لشکر اِس سرزمینِ پاک پراُترے اور ملحدوں کا غرور خاک میں ملانے میں کا مران ہوئے۔

بعدازاں وطن ومذہب دشمن عناصر کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور ضیاء صاحب بم دھماکہ میں شہید ہوگئے۔ضیاء صاحب کی شہادت کے بعد کا دور کسی حد تک زوال کا دور کہلاتا ہے کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جیسی قیادتیں ملکی منظرنامہ میں رہیں۔اِن لوگوں نے وقتاََ فوقتاََ حکومت کی اور کسی حد تک فوج بھی اِن کی پشت پررہی تاکہ درست سمت ہی سفر جاری رہے۔

جب جب فوج کو یہ بھنک پڑی کہ مسافرغلط سمت جانے لگا ہے تو وہ فوری کارروائی کرکے مناسب لوگ کرسیوں پر لابٹھاتے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایٹمی راز غیر ممالک کو دینے کاجرم کیا اور میاں صاحب فوج جیسے مخلص ادارہ کے خلاف سازشیں کرتے پائے گئے۔ بالآخر روشن خیالی وترقی کاایک دور ہمارے سامنے آتاہے۔ اکیسویں صدی کاآغاز قریب تھا اور دنیا بھر میں ترقی کی رفتار تیز تر تھی، جدید نظریات پنپ رہے تھے اور نئی راہیں کھُل رہی تھیں۔

ضروری تھا کہ اس دور میں پاکستان کی قیادت وڈیرہ سیاست اور لوہاری سیاست سے تعلق نہ رکھتی ہو۔ سو سیاسی قیاد ت کو وطن سے باہر بھیج دیا گیا اور کمانڈو مسندِ صدارت پر جلوہ گر ہوا۔
یہ دورانتظامی سطح پر بہترین اور غریب پروری کادور تھا۔ اشیائے خورد ونوش سستی، تیل و گیس عام آدمی کی دسترس میں اور علاقائی سطح پرتعمیری کام خوب ہوئے۔مگر پھر ایک عورت منظر پر آئی اور مغربی مقاصد کے حصول کے لیے میدان میں کود پڑی۔

نتیجہََ جان سے ہاتھ دھونے پڑے کیوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت کی قیادت ناجائز تھی۔پھر ایسی عورت جو مغرب کی نورِ نظر ہوکیسے برداشت کر لی جاتی۔ اِس بارانتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی ہی برسرِ اقتدار آئی۔مجرمانہ پسِ منظر کاحامل شخص منصبِ صدارت پر آن بیٹھا۔اِ س ڈاکو نے صدارتی منصب کو ا ٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ ایسا بے توقیر کیا کہ کسی جرنیل کے قابل نہ چھوڑا۔

یوں بھی اس دور میں ملک دشمن خفیہ سرگرمیاں ہوتی رہیں،مالی بدعنوانی کے حوالے سے بدنام ترین عہد تھا۔
یہ دور ختم ہوا تو "صاف چلی،شفاف چلی" تحریک انصاف سامنے تھی۔ عوام کوبار بار یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ یہ پہلی مخلص سیاسی قیادت سامنے آئی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اِسے اقتدار دلاؤ۔ عوام کالانعام نے ایک نہ سنی اور پٹواری ذہنیت سے لوہاروں کے ہاتھوں میں نازک ملک دے دیا۔

اس دور میں ایک بار پھر فوج کا وقار مجروح کرنے کی سرکاری کوشش کی گئی اور جرم ثابت ہونے پر وزیرِ اطلاعات کوگھر بھیجنا پڑا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملک کی وزارتِ عظمیٰ کامنصب جس شخص سے آلودہ ہے وہ چوری چکاری میں ماہر ہے۔ بیرون ملک اس کی جائداد ہے اور کالے دھن میں بھی ملوث ہے۔ سو منصب کو اس شخص سے پاک کردیاگیا۔اس کے بعدوزیرِ اعظم بنائے گئے شخص نے اپنے پیش رو کو پیش واکہنا نہ چھوڑا۔

عوام نے سمجھ لیا کہ یہ سارا طبقہ ہی چوروں اور لٹیروں کا ہے۔
اب کے تاریخ میں پہلی بار شفاف انتخابات ہوئے اور ادارے مداخلت سے باز رہے۔اندرونی وبیرونی مدد کے بغیر مخلص سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر تھمائی گئی۔ "وَتُعز مَن تشاء وَتُذِ لُّ من تشاء " سے عوام کے انتخاب کی تائید کی گئی تو کچھ دیسی لبرلز نے سمجھا کہ ادارہ مداخلت کرتا رہا۔

حالاں کہ یہ خوشی ومسرت کاموقع تھا اور محب وطن طبقات کا اس وقت خاموش رہنا کسی صورت نیک شگون نہ تھا۔
قائد مخلص تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ کابینہ میں اور انتظامی عہدوں پر قابل و مخلص افراد بٹھائے جائیں۔اسی لیے وزیرِ داخلہ جیسا حساس منصب حساس شخص کے حوالہ کیا گیا،اعلیٰ سفارت کاری کے لیے کچھ ممالک میں سفیر بھی اسی کڑی کے قابل افراد تعینات کیے گئے۔

ہر طرف کے زوال نے فوج میں بھی قحط الرجال کی سی صورت حال پیداکردی تھی۔ تب ہی خان صاحب، اُن کی کابینہ اور بڑی سیاسی جماعتوں نے سپہ سالار کی مدت میں توسیع کا قانون بِلاتردد پاس کیا۔ وزارتِ اطلاعات کے لیے مناسب شخص نہ ملنے کے سبب کچھ عرصہ یہ منصب خالی رہا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات کے لیے معروف سیاسی راہنما موزوں ثابت نہ ہوئے تو واحد بہترین ادارہ کے رجل عظیم سے خدمات لی گئیں۔

یہ وہ شخص ہیں جنھوں نے دورانِ ملازمت اپنے شعبہ کے لیے دن رات محنت کر کے سپہ سالار کو پاکستان بلکہ امت مسلمہ کے لیے امید کی کرن بنایا۔ اِن کی ہی خدمات تھیں جن کے سبب سپہ سالار کو سبک دوشی کے بعد اسلامی عسکری اتحاد نے اپنی قیادت کے لیے منتخب کرلیا۔موجودہ سیاسی قیادت عطیہِ خداوندی ہے اور ان کے ہر فیصلہ میں دوررس خوبیاں پنہاں ہیں۔
ہمیں شکر بجالانا چاہیے ایسے لوگوں کو اقتدار تک پہنچانے والوں کااور اطاعت کرنی چاہیے ایسی قیادت کی۔ بلا وجہ انارکی پھیلانے والے عناصر سے خبردار رہتے ہوئے ہمیں ملکی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر موجودہ رہبروں کے شانہ بہ شانہ چلنا چاہیے کہ یہی ہیں جو ملک کو ترقی اور نقطہِ کمال تک پہنچا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :