غداری ایک تمغہ ۔۔۔!

جمعرات 27 فروری 2020

Mohammad Ammar Ahmad

محمد عمار احمد

الفاظ کے معنی زمان ومکاں اور حالات وواقعات کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔برِ صغیر میں "غدار" کالفظ جس شخص سے منسوب کردیاجاے سمجھ جائیے کہ کسی حد تک وہ مردِ میداں ہے۔
 ہمارے خطہ میں اس لفظ کی معنوی تحریف 1857ءکی جنگِ آزادی سے شروع ہوتی ہے۔ فرنگی سرکار کے سامنے وہ سب لوگ جنھوں نے اُن کی آمد پر اپنی مٹی سے محبت کادَم بھرا اور دھرتی کو کسی غاصب کے ہاتھ دینے سے انکار کیاپھر مزاحمت پراُتر آئے وہ "غدار" کہلائے۔

یوں عمومی منفی معنی کی بجائے "غدار" کالفظ تمغہ بن گیا اورلوگ اس خطاب کے ملنے پر خود کو درست سمت جان کر اطمینان کاسانس لیتے۔تاریخ،ادب اورنصاب کی کتب میں اکثر جگہ جنگِ آزادی کو "غدر کازمانہ" لکھاگیا۔ شعوری و لاشعوری طورپرمؤرخین، ادیبوں اور نصاب مرتب کرنے والے مرعوب ذہنوں نے سرکار کابھرم رکھا۔

(جاری ہے)

تحریکِ پاکستان کے دوران کچھ اور اصطلاحات سامنے آئیں۔

وہ لوگ جو مسلم لیگ کے موقف سے اختلاف رکھتے تھے ہندو یاانگریز کے آلہ کار،مذہب سے مخلص ہونے کی بجائے "وطن پرست" کہہ کر معطون کردیے گئے۔مولانا حسین احمدمدنی،مولانا ابوالکلام آزاد  اورخان عبدالغفار خان جیسے لوگ مسلمانوں کی دشنام طرازیوں کا ہدف تھے۔
تقسیمِ ہند کے بعد وطنِ عزیز میں بہت کچھ بدلنے کے بعد رویے نہ بدلے اورالفاظ  کابے دریغ استعمال بھی نہ رُکا۔

مولانا مدنی اور مولانا آزاد تو خیر وہیں رہ گئے  مگرباچاخان کے حصہ میں پاکستان کی سرکار آئی۔وطن پرست ہونے کے سبب "گُم راہ " تو پہلے ہی تھے ،بعداز قیامِ پاکستان وہ اپنے موقف پر قائم رہے تو"غدار"قرار دے دیے گئے۔سیلاب کے ساتھ ریت کی صورت بہنے کی بجائے چٹان بن جانے والوں کے لیے زمین تنگ کردینا طاقت ور کی خصلت ہے۔
 معاملہ آگے بڑھتا ہے تو جنرل ایوب خان اورمحترمہ فاطمہ جناح سیاسی میدان میں آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔

پاکستانی سرکار کے پاس وہی تمغہِ غداری ہے جو بانیِ پاکستان کی بہن کے نصیب میں آیا۔ مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجیے کہ مُلک بنانے والے آج غدار ٹھہر چکے تھے اور مُلک کھانے والے مُحبِ وطن۔ طاقت ور جانتا ہے کہ محکوم کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کیاجا سکتا ہے۔وطن اور مذہب کی آمیزش سے کوئی "نظریہ ضرورت" محکوم کے سامنے رکھو پھر پوچھو کہ لکیر کے کس طرف ہو۔

؟
بعد کے دنوں میں جمہوریت کانعرہ لے کر میدان میں اترنے والے ذوالفقار علی بھٹوغدارٹھہرے۔معروف سیاسی راہ نما بے نظیر بھٹو ، نواز شریف ، آصف علی زرداری،اسفند یارولی اورمحمود خان اچکزئی سبھی اسی فہرست میں نظر آئے۔ کچھ کو وقتاََ فوقتاََ نوازاجاتارہاپھر مخالف سیاسی جماعتوں کے ذریعہ بہتان باندھے گئے۔ نواب اکبر بگٹی کو اسی تمغہ کے ساتھ نوازاگیا اور پہاڑوں میں شہادت کی سعادت کے لیے بھی راہ ہم وار کی۔

یہ ایک اچھا پہلو ہے کہ ہماری سرکارعوام کے لیے اٹھنے والے لوگوں کو سراہتی ہے مگرانعام دینے کا نایاب سااندازہے۔
لوگ جانتے ہیں کہ مولانا خادم حسین  رضوی صاحب دومختلف جماعتوں کے عہد ِ اقتدار میں سڑکوں پر بھرپوراندازمیں نکلے۔ پہلے اُن کامدعا پارلیمان کے خلاف تھا کہ توہینِ رسالت قانون میں ترمیم کی گئی ہے اوراُس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔

مطالبہ یہ تھا کہ اُسے پہلی صورت میں برقرار رکھا جائے ۔ آرام سے بیٹھے رہے،سیاسی لوگوں کوللکارتے رہے۔جوشِ خطابت میں کچھ اِدھر اُدھر بھی نکل جاتے۔حکومت کی طرف سےفوج کو مداخلت کاکہاگیا تو انکار کردیاکہ عشاق کے اس قافلے سے نھیں لڑسکتے۔ دوسری بار آسیہ مسیح کے معاملہ پر وہ میدان میں آئے۔ اِس مرتبہ اُن کی جماعت کے راہ نماؤں کابیانیہ کسی طرح عسکری اِدارے کے خلاف چلاگیا۔

اب کے  شاید مسند پر "فاسق" بیٹھے تھے کہ طیش میں آگئے۔ رضوی صاحب تو گرفتار ہوئے ساتھ ملک بھر میں راہ نماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں،شق 6 کے تحت مقدمہ چلایا گیا اورکچھ لوگ جان سے بھی گئے۔
کراچی میں ایک پٹھان نوجوان نقیب اللہ محسود ریاستی دہشت گردی کاشکار ہوتاہے تو منظور پشتین اپنے رفقا کے ہم راہ اسلام آباد میں ڈیرے ڈالتاہے۔ لہجہ کچھ تلخ تھا مگررفتہ رفتہ آواز پھیلنے لگی ہے اور لوگ متوجہ ہونے لگے تو "غدار" قرار دے کر گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔

اُن کے مطالبوں میں راؤ انوار کی گرفتاری، جنگ زدہ علاقوں کی خوش حالی،وہاں کے لوگوں کی عزت وشرف کی بحالی اور آرمی پبلک اسکول کے واقعہ کی شفاف تحقیقات شامل ہیں۔ ایسے معقول مطالبوں پر بات سننے کی بجائے "غدار" قرار دے کر عوام کے سامنے اُن کا بیانیہ بگاڑنے کی راہ لی گئی۔
اِس فہرست میں نیا اضافہ یوں ہُواکہ وزیرِ اعظم پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پر آئین کی شق 6 کے تحت مقدمہ چلایاجائے گا۔

حالاں کہ خان صاحب کو اِدھر اُدھر سے پوچھ لیناچاہیے تھا کہ ایسا ممکن بھی ہے۔؟کیوں کہ مولانا کو "حُب الوطنی " کی سندِ فضیلت قولی صورت میں محترم آصف غفور صاحب نے عطاکی تھی جب وہ ایسی سندیں عطاکرنے والوں کے ترجمان تھے۔بہر حال مولانا  اور اُن کے حامیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ مولانا تمغہِ غداری حاصل کرنے والوں کی صف میں شامل ہونے جارہے ہیں۔کیوں کہ ہماری عالی شان روایات ہیں کہ ایسے معاملات میں ہمارے یہاں عدالتوں میں مقدمہ بعدمیں دائر ہوتا ہے اور فیصلہ پہلے لکھاجاچکا ہوتا ہے۔ ایسا اعزاز کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے سو  بہ صد شُکر یہ تمغہ قبول کیجیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :