قانون کی لاٹھی یا لاٹھی کا قانون؟

پیر 24 فروری 2020

Mohammad Faisal

محمد فیصل

جوں جوں زمانہ بدل رہا ہے حالات، سوچیں، انسانی و معاشرتی اقدار بھی تو بدل رہی ہیں۔ انسان کبھی کبھی سوچتا ہے کہ کیوں نہ ان اقدار کے بدلنے کے ساتھ ساتھ وہ اقوال وہ محاورے بھی بدل دئیے جائیں جو ہمارے بزرگوں نے مرتب کر رکھے ہیں اور ہمیں بچپن سے ہی سکھا دیئے جاتے ہیں، بچپن میں کہاوت سنا کرتے تھے کہ سانچ کو آنچ نہیں! اور میں نے آج تک آنکھیں بند کیے اس قولِ زریں پہ ایمان رکھا۔


 پر اب جو حالات دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام اقوالِ زریں کسی دیوار میں چُن دیے گئے ہیں اور اب ان پر نئے سرے سے غورکیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ مثلاً اب آپ باآسانی اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں "سانچ میں ہی آنچ ہے!" "غرور کا سر بہت اونچا ہے" "جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں پر بھی ہوتے ہیں" "کر برا ہو بھلا" "ڈوبتے کو تنکا بھی نہ دو" "باتوں کے بھوت لاتوں بلکہ ڈنڈوں سے ہی باز آتے ہیں" سو دن چور کے تو ایک دن بھی چور کا" یقین مانیں اِس سے اور کچھ نہیں تو ہمارے بچوں کو کتابی لفظوں کے درد ناک معنی و حقائق سے آشنائی ضرورنصیب ہو گی۔

(جاری ہے)

سنا ہے کہ غیر ترقی یافتہ دور اچھا تھا جب قومی رہنما اور بڑے لوگ اپنے قول و فعل میں اس بات کاخاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے بولے ہوئے کسی لفظ اور اٹھائے ہوئے کسی قدم سے سننے اوردیکھنے والوں خصوصاً نوجوان نسل کے اخلاق و کردار پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ عوام اپنے رہن سہن اور گفتار وکردار میں اپنے رہنماؤں کی اور بچے اپنے بڑوں کی تقلید کرتے ہیں۔

بادشاہ کسی باغ سے گزرتے ہوئے ایک پھل توڑ لے تو اس کا لشکر سارا باغ ہی اجاڑ دیتا ہے اس لئے رہنما اوربزرگ لوگ ایسی باتوں سے اجتناب برتا کرتے جو آنے والی نسلوں کیلئے مثال بننے کی بجائے بگاڑ کا سبب بنیں لیکن آج حالات یہ ہیں کہ قانون کی پاسداری کی نصیحت تو قانون دان کرتے ہیں لیکن خود کو قانون سے بالا تر تصور کرتے ہیں۔
کیا سارے اقوال زریں صرف لائیک اور شیئر کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر چلنے والے اس ملک خداداد میں کیا صرف حکمران اپنی حدود سے تجاوز کئے ہوئے ہیں یا ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں ایک ننھا منا سا فرعون ہے؟ اپنی دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والے کا راستہ بند کرنے والا اسے اپنا حق سمجھتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس فٹ پاتھ پر چھابڑی رکھنے کا کرایہ وہ الگ سے کمیٹی کو دان کرتا ہے، بڑی گاڑی والا چھوٹی گاڑی والے کو گالی دیتا ہے اور اس کو سڑک سے گاڑی اتار لینے پر مجبور کر دیتا ہے، چھوٹی گاڑی والے کو موٹر سائیکل والے کیڑے مکوڑے محسوس ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل والے کو سائیکل سوار سڑک پر پسند ہی نہیں، وکیل ڈاکٹر سے لڑتے ہیں تو جان مریضوں کی نکالتے ہیں لیکن جب انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات کریں تو ان کے اپنے بھائی بند احتجاج کرتے ہیں۔

سیاست دان کرپشن سے مال بناتا ہے اور جب اسے کٹہرے میں لایا جاتاہے تو یا جج کو خریدا جاتا ہے یا پھر جج بدلنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ شاہی کے دن اسی ملک میں گزارے جاتے ہیں اور جب سو دن چور کے ایک کوتوال والا معاملہ ہوتا ہے تو قانون بھی بدل دیاجاتا ہے۔
 ایک جج، غریب آدمی سے لیکر سیاست دان تک سب کے گناہ دیکھتا ہے فیصلے کرتا ہے،سزائیں جزائیں اسی کے قلم سے تحریر ہوتیں ہیں مگر جب جج کو کٹہرے میں آنا پڑے تو اٹارنی جنرل تک فارغ کر دئیے جاتے ہیں۔

کس کا گلہ کس سے کیا جائے؟ جب یہ طے ہی نہیں کہ حق پر کون ہے اور ہم جیسے معاشروں میں جیت صرف طاقتور کی ہوتی ہے۔ کمزور کے لئے ایک ہی قانون رائج ہے جو علامہ محمّد اقبال نے یوں بیان کیا تھا کہ تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ایسے تمام واقعات چند دن اخبار کی سرخیوں یا بریکنگ نیوز میں لوگوں کے لہو گرماتے ہیں مگر چائے کی پیالی کا یہ طوفان کسی بھی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتا، ان سب مسائل کا حل بس قانون کی حکمرانی ہے، قانون جو سب کے لئے برابر ہو، جس کے شکنجے سے کوئی بچنے نہ پائے،کیا غریب کی عزت و آبرو کا کوئی قانون یہاں نافذ بھی ہے؟ کیا قانون کی عملداری کے لئے حکومت یا عدلیہ کوشاں بھی ہے؟ 
اس قانون میں امیر اور طاقتور کے لئے چور دروازے میسر ہیں اس لئے وہ کبھی اس کو تبدیل نہیں کریں گے مگر سوال ان لوگوں سے ہے جو ایک عام طبقہ سے اٹھ کر قانون کے قلم دان کے مالک و مختار بنتے ہیں۔

کیا ہم یہ دروازہ بھی بند سمجھیں؟ کیا واقعتاً انصاف اس ملک سے رخصت ہو گیا؟ کیا ظالم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں؟ کلمہ حق کہنے والوں کی زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ یہ معاشرہ کب اپنی تعمیر کی طرف توجہ دے گا؟ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ظالم ابن ظالم اور مظلوم ابن مظلوم نسلیں اسی سلسلہ کی پروردہ ہیں، اور ایسے گھٹن زدہ معاشرے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔ معاشرے کے فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہو گا کہ صرف اور صرف قانون کی بالادستی میں اس ملک کے مسائل کا حل ہے. ایسا قانون جو سب کے لئے برابر ہو، ایسا قانون جو کتابوں کے علاوہ میدان عمل میں بھی موجود ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :