غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کب رکے گا؟

اتوار 13 فروری 2022

Mohammad Faisal

محمد فیصل

ہمارے معاشرے میں کسی کے لیے بے غیرت کا لفظ استعمال کرنا ایک گالی سمجھا جاتا تھا۔ بے غیرتی کا طعنہ ہر کسی کے لیے ناقابل برداشت ہے اور ہر شخص خود کو غیرت مند سمجھتا ہے۔ اگر ہم اردو لغت کا جائزہ لیں تو غیرت کا مطلب انسان کی وہ خاصیت ہے جو بے عزتی کو گوارا نہیں کرسکتی ہے۔آپ اسے ستم ظریفی کہہ لیں کہ یہاں دودھ میں پانی ملانے والا بھی غیرت مند ہے۔

جعلی ادویات بیچنے والا بھی غیرت کے ساتھ زندگی گذار رہا ہے۔ جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کی جان لینے والے بھی غیرت مند ہیں تو ایک موبائل فون کے لیے کسی ماں کے لعل کو اس سے جدا کرنے والے بھی اپنے سر پر غیرت تاج سجائے گھومتے ہیں۔رشوت لے کر غیر قانونی عمارتیں بنانے کی اجازت دینے والے کے ساتھ غیرت کا لاحقہ ہے تو جعلی ڈگری پر نوکریاں حاصل کرنے والوں کے لیے بھی غیرت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔

(جاری ہے)

یہ اتنا عجیب معاشرہ ہے کہ یہاں قلم فروش تو باغیرت ٹھہرتا ہے لیکن پیر میں گھنگرو باندھ کر رقص کرنے والی رقاصہ بے غیرتی کی مرتکب قرار پاتی ہے۔
ہمارے ہاں غیرت کی اپنی تعریف اور اپنے تقاضے ہیں۔آپ کبھی گوگل پر لفظ غیرت سرچ کریں تو آپ کو غیرت کے نام پر قتل کی بے شمار سرخیاں ملیں گی۔یعنی یہ غیرت ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے کسی انسان کی باآسانی جان بھی لی جاسکتی ہےلیکن یہ الگ بات ہے کہ کسی کو اپنی نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور مملکت خداداد پاکستان میں غیرت کے نام موت کا یہ بھیانک رقص آج بھی جاری ہے۔

آپ خیبر کے پہاڑوں سے کراچی کے سمندروں تک پہنچ جائیں آپ کو یہ نام نہاد غیرت مند ہر جگہ ملیں گے جو اپنی بہن، بیٹیوں، بیویوں اورماٶں کے لیے خود عدالت لگاتےہیں اور خود ہی ان کا فیصلہ کردیتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیرت کے نام پر قتل صرف پاکستان میں ہی نہیں ہورہے ہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں بلکہ تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا  میں سب سے پہلے قدیم رومن سلطنت میں آگسٹاس سیزر نے اخلاقی اقدار برقرار رکھنے کے لیے ایسا قانون متعارف کروایا تھا،جس میں مرد کو اپنی بیوی اور بچّوں کی جانوں پر مکمل اختیار حاصل تھااوراگر کوئی مرد سماجی دباؤ کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے انکار کردیتا، تو اسے بھی قتل کا حق دار سمجھا جاتا۔

اسی طرح یورپ کی تاریخ میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے شواہد ملتے ہیں، اٹلی میں بھی غیرت کے نام پر قتل ہوتے تھے اور آج بھی  بر طانیہ میں سالانہ12قتل غیرت کے نام پر ہوتے ہیں۔ غیرت کے نام پر امریکہ جیسے ملک میں بھی ایک سال میں27قتل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح روس میں ایک سال کے دوران غیرت کے نام پر29قتل ہوئے۔
پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔

یومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1000 خواتین کا غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعداد غیر متعین ہے، کیونکہ بہت سے معاملات کبھی بھی رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر جن وجوہات کو بہانہ بنا کے یہ قتل کیے جاتے ہیں ان میں نا قابل قبول تعلقات، غیر موزوں لباس، زبان درازی، پسند کی شادی یا گھر والوں کی مرضی سے شادی سے انکار، طلاق کا مطالبہ، یا دیگر ”نا زیبا“ حرکات شامل ہیں۔

جب کہ بہت سی ایسی نوعیت کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب ایک لڑکی نے پسند کی شادی کر لی اور اسے بعد میں خاندان کے افراد کی طرف سے قتل کر دیا گیا۔ غیرت کے نام پر قتل کے یہ واقعات اکثر اپنا جرم چھپانے کے لیے ہی کیے جاتے ہیں۔ یہاں اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کی جائے تو غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی وارداتوں کے اعداد و شمار سن کر آپ کے کان کھڑے ہوجائیں گے جہاں 2020 کے مقابلے میں 2021 کے دوران  غیرت کے نام یا کارو کاری میں خواتین و مردوں کے قتل کے واقعات میں  27 فیصد اضافہ ہوا۔

سندھ پولیس کی جانب سے سالانہ اعداد و شمار میں 2020ء اور 2021ء  کے جنوری سے جون تک 6 ماہ کے اعداد و شمار کا موازنہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق  سال 2020ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران کارو کاری میں مرنے والے افراد کی تعداد 65 تھی جبکہ 2021ء کے اس عرصے میں یہ اعداد 83 تک پہنچ گئے۔ رپورٹ میں پورے سال کا موازنہ نہیں کیا گیا۔سندھ میں کاروکاری کے واقعات میں مردوں اور خواتین کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم رجحان سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ ہلاکتیں خواتین کی ہوتی ہیں۔

دو سال کے موازنے میں سامنے آیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس یہ بھی ریکارڈ کرتی ہے کہ مجرم یا مبینہ قاتل کون ہے۔ مقتول کی مائیں، بیٹیاں اور بہنیں کبھی اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتیں۔ یہ رجحان بہت زیادہ ہے کہ مرد ایسے قتل کا ارتکاب کرتے ہیں۔اس رجحان میں معمولی تبدیلی آئی ہے کہ کس قسم کے آدمی نے جرم کیا۔

سال 2020 میں ان جرائم میں ملوث افراد میں زیادہ تر شوہر تھے (35 قتل)، لیکن 2021میں یہ تعداد گھٹ کر 28 ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق ایسے قتل کیلئے پسندیدہ ہتھیار پستول یا ریوالور ہوتے ہیں، دوسرے ہتھیار جو ان وارداتوں میں استعمال ہوئے وہ کلاشنکوف، شاٹ گن اور چاقو ہیں۔ ایک کیٹیگری جسے ’دیگر ہتھیار‘ کہا جاتا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ وہ پتھر ہے۔ اس کیٹیگری کی وارداتوں میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔


ملک میں اس قبیح جرم کے تدارک کے لیے اب تک کوئی عملی اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔2016 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں پاکستان میں پسند کی شادی یا بعض دیگر نام نہاد وجوہات کی بنیاد پر لڑکیوں اور خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے خلاف  پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا تھا۔اس قانون میں نہ صرف خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھیں بلکہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کا مجرم کو معافی دینے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

اس قانون سازی سے قبل قتل کی جانے والی خواتین کے ورثا عموماً قاتل کو معاف کر دیتے تھے کیوں کہ قتل کرنے والے بھی اکثر اوقات خاندان ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔افسوناک امر یہ ہے کہ اس قانون سازی کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کا سلسلہ ملک میں نہیں رکا بلکہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب بھی فرسودہ سوچ کے سبب اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں لڑکیوں اور خواتین کو پسند کی شادی یا محض کسی مرد سے تعلق کے شبہے میں ’غیرت‘ کے نام پر جان سے مار دیا جاتا ہے۔


یہاں یہ بات کسی شک و شبہ کی گنجائش کے بغیر کہی جاسکتی ہےکہ ہم ابھی تک غیرت کا مطلب سمجھے ہی نہیں، غیرت فرض شناسی اور خودداری کا دوسرا نام ہے۔ غیرت اپنی ذمہ داریوں کی آگاہی اور بطریق احسن نبانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے اپنے فرائض کے تکمیل کوغیرت کا نام دینے کہ بجائے، درندگی اور وحشیت کو غیرت کا نام دے دیا ہے۔ غیرت کو ہم نے ایک ایسی بلا بنا دی ہے جو انسانوں کے خون کی پیاسی ہے اور جب بھی جوش مارتی ہے تو کہیں نہ کہیں انسانوں کا خون بہنے لگ جاتا ہے۔


غیرت کے نام پر قتل کے اس وحشیانہ کھیل کو روکنے کے لیے ہمارے مذہبی رہنماٶں کو سامنے آنا ہوگا۔ملک کے جید علما کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل غیرت کے نام پر قتل کو شرعاؐ ناجائز قرار دے چکےہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے علما کرام کھل کر اس مسئلے پر بولنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔علما کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ منبر سے اس پیغام کو پہنچائیں کہ ہمارے نبی ص نے ایک انسانی جان کی حرمت خانہ کعبہ سے زیادہ قرار دی ہے۔

اس لیے کسی کو شرعاؐ یا قانوناؐ یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی نام نہاد غیرت کے لیے کسی بے گناہ کے خون سے اپنے ہاتھوں میں رنگے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس حوالے سے قانون میں سختی کرے اور اس طرح کے قتل کے واقعات کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ان کے کیسز کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں چلایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :