بلدیاتی قوانین پر احتجاج کیا رنگ لائے گا؟

جمعرات 20 جنوری 2022

Mohammad Faisal

محمد فیصل

کراچی کی سڑکوں پر آج کل مظاہروں کی بہار آئی ہوئی ہے۔کہیں دھرنا دیا جارہا ہے تو کہیں ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ آخر سڑکوں پر نکلنے والی یہ سیای جماعتیں اور ان کے کارکن چاہتے کیا ہیں ؟ اس کا جواب پاکستان کی سیاسی تاریخ کا شاید ایک نیا باب ہے۔کسی صوبے کی اسمبلی سے پاس کردہ بلدیاتی قوانین کے خلاف قوم نے ایسا احتجاج  پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

آخر ان بلدیاتی قوانین میں ایسا ہے کیا جس نے مذہبی طبقات کی نمائندگی کرنے والی جماعت اسلامی سے لے کر تحریک انصاف کو ایک پیج پر لاکھڑا کیا ہے۔ مسئلہ اختیارات کا ہے یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا اس کے لیے ہمیں خصوصی طور کراچی کے ماضی اور شہر کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالنی ہوگی۔
کراچی کو ہمیشہ سے اپوزیشن کا شہر سمجھا جاتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اس شہر کی اپنی ایک سیاسی حیثیت ہے۔

ماضی میں کہا جاتا تھا کہ کراچی سے شروع ہونے والی تحریک کا انجام اس وقت کی حکومتوں کا اختتام ہی ہوتا تھا۔ یہ شہر ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھا۔ بھٹو کے دور اقتدار میں اس نے اپنا پلڑا جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کی طرف ڈالا۔جنرل ضیا کے دور میں یہاں ایم کیو ایم کو عروج ملا جس کا طرز سیاست آج بھی بہت سے ماہرین کے لیے ایک پہیلی کی طرح ہے اور وہ آج تک یہ نہیں جان سکے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تقریباؐ چار دہائیوں پر مشتمل سیاست کا طرز کیا تھا۔

وہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی تھی تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی طاقت کی کنجی اس کے پاس ہی ہوتی تھی۔ کراچی کی سیاست ہمںیں یہ بات بھی بتاتی ہے کہ اس شہر نے کبھی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنا اعتبار نہیں بخشا ہے اور شاید یہی بات آج بھی پیپلز پارٹی کی صفوں کو بے چین رکھتی ہے کہ وفاق کی زنجیر کہلانے والی ان کی جماعت اہل کراچی کو متاثر کیوں نہیں کرسکی ہے ؟
ہم کراچی کے ترقیاتی دور کی بات کریں تو اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ کراچی نے حیرت انگیز طور پر فوجی آمروں کے دور میں اپنا سہانا وقت زیادہ دیکھا ہے اور اس ایک وجہ بااختار مقامی حکومتوں کا قیام تھا۔

جنری ایوب کا بی ڈی سسٹم ہو یا جنرل ضیاء کے دور کے بااختیار کونسلرز یا پھر جنرل مشرف کے دور حکومت میں طاقت سے لبریز ناظمین ان سب نے فنڈز کی روانی اور اختیارات کی وجہ سے شہر کا نقشہ بدلنے کی کافی حد تک کی کوشش کی۔عبدالستارافغانی ،نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ اور سید مصطفی کمال کے ادوار کو ہم کراچی کی مقامی حکومتوں کے حوالے سے مثالی قرار دے سکتے ہیں۔


اسے ہم اپنے جمہوری نظام کا ایک المیہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جمہوری حکومتوں نے کبھی اس بات کی خواہش ہی نہیں کی ہے کہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے اور ملک میں ایک بااختیار بلدیاتی نظام رائج کیا جائے۔ مضبوط بلدیاتی ادارے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں جمہوریت کی نرسری کا کام انجام دیتے ہیں ۔اس نظام میں ناصرف عوام کے مسائل ان کی دہلیز پرحل ہوتے ہیں بلکہ ملک و قوم کو نئی لیڈر شپ بھی میسرآتی ہے۔

طیب اردگان سے لے کر احمدی نژاد تک ہمارے سامنے لاتعداد مثالیں موجود ہیں جو اپنے ممالک کے بلدیاتی نظام کی دریافت ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں حکومتوں میں آکر آمرانہ طرز عمل اختیار کرلیتی ہیں اور ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ طاقت کا توازن ان کے ہاتھوں میں ہی رہے۔اب چاہے پیپلز پارٹی جیسی خود کو جمہوریت پسند کہنے والی جماعت ہی کیوں نہ ہو اگر اس کو کسی مجبوری کے تحت بلدیاتی انتخابات کی طرف جانا ہو تو وہ اس طرح کے قوانین کے سامنے لے آتی ہے جس میں کسی میٹروپولیٹن شہر کے میئر کے پاس کچرے اٹھانے تک کا بھی اختیار نہیں ہوتا ہے۔


سندھ کے موجودہ بلدیاتی قوانین کےخلاف صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کا بھرپور احتجاج اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اب عوام کے ؐحقیقی ایشوز پر بات کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ بے اختیار بلدیاتی نظام صرف کراچی کے لیے مسئلہ نہیں بلکہ یہ لاڑکانہ کے لیے بھی پریشان کن ہے۔اپوزیشن کو اپنی تحریک کے دوران لسانیت کے تاثر کو دور کرنا ہوگا اور عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ کسی بھی لسانی تعصب سے پاک ان کے حقوق کے لیے سڑکوں پر موجود ہیں۔


جہاں تک بات پیپلز پارٹی کی ہے تو ان بلدیاتی قوانین اور نئی حلقہ بندیوں سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ "دھندا ہے پر گنداہے" کے مصداق اس مرتبہ پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا میئر لانے کے لیے تمام سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے تیار ہے اوراگر وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتی ہے شہر سے کامیاب ہونے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اس بے اختیار نظام کے سائے تلے تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہوگی اور یہی پیپلزپارٹی کی اصل کامیابی ہوگی اور بالفرض بلاول بھٹو زرداری کی جماعت کراچی سے اپنا میئر لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اپنی صوبائی حکومت کے بل بوتے پر وہ شہر میں کاسمیٹکس کام کرواکے یہ ثابت کرے گی کہ اس بلدیاتی نظام میں سب اختیارات موجود ہیں ۔

اس طرح کا طرز سیاست ملک میں جمہوریت کے لیے کسی طرح بھی سود مند ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔وقت کا تقاضا یہی ہے کہ صوبے کی برسراقتدار جماعت سڑکوں پر نکلی ہوئی اپوزیشن کی بات سنے اور بامقصد مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا بلدیاتی نظام لایاجائے کہ جس کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :