ہم کون سا نظام چاہتے ہیں ؟

بدھ 26 جنوری 2022

Mohammad Faisal

محمد فیصل

ملک جب بھی بحرانوں اور افرا تفری کا شکار ہوتا ہے تو ہر کوئی نظام کی تبدیلی کی باتیں شروع کردیتا ہے۔کوئی یہاں نظام مصطفی کی بات کرتا ہے تو کسی کے خیال میں سوشلزم ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ یہاں کبھی سرخ اور سبز انقلاب کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ دور آمریت میں یہاں جمہوریت کا نعرہ لگتا ہے تو جمہوری دور میں ہمیں بوٹ والے یاد آنے لگتے ہیں۔

ہمیں اپنا ہر جانے والا حکمران نئے حکمران سے بہتر لگتا ہے اور ہم مثالیں دے رہے ہوتے ہیں کہ اس دور میں اتنی مہنگائی اور بے روزگاری نہیں تھی۔ 72 سال سے بھی زائد بیت گئے ہیں ہم آج تک جان ہی نہیں سکے ہیں کہ ہمارے لیے کونسا نظام سود مند ثابت ہوگا
یہاں کرکٹ سیفد کپڑوں سے رنگین کپڑوں تک پہنچ گئی، میچز پانچ دن سے گھنٹوں تک آگئے۔

(جاری ہے)

موسیقی روشن آرا بیگم ،نور جہاں اور مہدی حسن سے علی ظفر اور عاطف اسلم تک پہنچ گئی، حفیظ جالندھری، فیض اور فراز سے ہوتے ہوئے ہم وصی شاہ ،عباس تابش اور عمیر نجمی تک جاپہنچے، ہم سنتوش کمار ،درپن ،محمد علی، وحید مراد اور ندیم سے لے کر شان، فہد مصطفیٰ اور دانش تیمور تک آگئے،انسان کے قدم چاند تک پہنچ گئے ، دنیا موبائل کی صورت میں ہاتھوں تک سمٹ گئی ،بچے آنکھ مچولی کی بجائے پب جی اور فری فائر کھیلنے لگے، گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے ہونے لگی لیکن ہم  نہ جان سکے تو یہ نہیں جان سکے کہ ہمیں نظام کون سا چاہیے۔


ہم نے خان لیاقت علی خان کا مکا بھی دیکھ لیا، خواجہ ناظم الدین کی شرافت بھی دیکھی ، ایوب کا جلوہ بھی دیکھا،یحییٰ کی رنگینیاں بھی بھگتیں،بھٹو کا اسلامی سوشلزم بھی برپا ہوتے دیکھا،ضیا کی شریعت بھی دیکھی ، بے نظیر کی جمہوریت کو بھی تولا،میاں صاحب کاایشین ٹائیگر بھی دیکھا، مشرف کے سب سے پہلے پاکستان کا لطف اٹھایا، زرداری کے جمہوریت بہترین انتقام ہے کے دور سے بھی گذرے اور عمران کی ریاست مدینہ تک آپہنچے لیکن سوال وہیں کھڑا رہاکہ ہم آخر نظام چاہتے کون سا ہیں ؟
ہم ان تمام حکمرانوں کے دور میں نظام کی تبدیلی بات کرتے رہے۔

یہاں آج بھی عوام کو بے وقوف بنانے کاسب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان کو کہہ دیا جائے کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ سوال پھر وہی ہے آخر وہ نظام ہے کون سا اور یہ نظام لائے گا کون؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم آج تک اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔ ہماری سیاست بس چند چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔یہاں صرف ڈیل اور ڈھیل کی باتیں ہوتی ہیں۔

یہاں سب کچھ بدل گیا نہیں بدلی تو عوام کی تقدیر نہیں بدلی۔جالب کے دور میں بھی "پاٶں ننگے تھے بے نظیروں کے"اور آج بھی ان کے پاٶں ننگے ہی ہیں۔ کل بھی اس ملک میں بھوک رقص کرتی تھی اور آج بھی یہاں یہ ناچ جاری ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہر حکمران نے ہمیں روٹی کپڑے اور مکان کے پیچھے لگائے رکھا۔ ہم پیٹ کا ایندھن بجھانے میں اتنا مصروف اور ہلکان ہوگئے کہ ہمیں نہ نظام سے دلچسپی رہی اور نہ ہی ہمیں اس بات سے کوئی غرض رہی کہ کون ہمیں کتنا نقصان پہنچا گیا ہے۔

ہمارے لیے بس آنے والا حکمران برا ہوتاہے جبکہ کرتا  وہ بھی وہی کچھ ہے جو اس کے پیشرو کرچکے ہوتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کے درمیان اتنی خلیج پیدا ہوچکی ہے جو پہلے کبھی تاریخ میں نہیں تھی۔عوام گیس، آٹے اور پٹرول کے لیے رسوا ہورہے ہیں تو اشرافیہ کی باتیں کسی کے ملک سے جانے اور کسی کے آنے تک میں محدود ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ڈیل ہورہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس کو ڈھیل مل رہی ہے۔یہ ڈیل اور ڈھیل دینے والے کون ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔عوام کو اگر یہ کہیں مل جائیں تو ہاتھ جوڑ کریقینی طور ہر عرض کریں گے کہ بھوک،افلاس،بے روزگاری اور غربت سے نجات کے لیے تھوڑی ڈھیل ان کو بھی دیدی جائے اور بے شک اس کو "روٹی کے نظام"کا نام دیدیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :