حقیقی تبدیلی کیسے آئے گی

پیر 10 مئی 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

ایسا لگتا ہے کہ ایک دلدل ہے جو ہمیں نگلتا جارہا ہے۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور وسائل ہیں کہ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ میں محو حیرت ہوں کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انہیں اپنے ڈھائی سالہ اقتدار کی کارکردگی پر فخر ہے۔ ملک کے قرضے ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں۔روزگار کے مواقع کمیاب ہورہے ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے تو خان صاحب آخر فخر کس بات پر کررہے ہیں یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

عمران خان سے اس ملک کی ایک بڑی اکثریت نے اپنی امیدیں وابستہ کی تھیں تو جو ان کے اس فخریہ بیان کے بعد کسی آئینہ کی طرح ٹوٹ گئی ہیں۔ کوٰئی ایک شعبہ تو ہو جس پر فخر کیا جاسکے۔ خان صاحب کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ صرف سابقہ حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

(جاری ہے)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ستر سالوں میں اس ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا ہے اس کا مداوا دو چار برس میں نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ایک سمت ضرور متعین کی جاسکتی ہے مگر ہم تو ابھی سمت سے بھی بہت دور ہیں۔


ملک کا موجودہ نظام اپنی موت آپ مررہا ہے۔ آپ کراچی میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو دیکھ لیں عوام نے گھروں سے نہ نکل کر اس نظام کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہ ایک ایسا گلا سڑا نظام ہے جو مختلف شخصیات اور اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہماری ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ یہاں پر کبھی بھی حقیقی قیادت کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ کوئی اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اگ کر لیڈر بن گیا تو کوئی اپنے باپ دادا کا نام آج تک فروخت کررہا ہے۔

کچھ لوگوں نے اہنے طور پر کوشش ضرور کی کہ اس نظام پر کوئی کمند ڈالیں لیکن وہ بری طرح ناکام ہوگئے کیونکہ یہ ملک مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ یہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوٰئی جج اپنے ساتھی جج کے خلاف فیصلہ نہیں دیتا اور کوئی جرنیل کسی دوسرے جرنیل کو کرپٹ نہیں سمجھتا۔ یہاں بیوروکریسی میں موجود افسران فرشتے ہیں اور اگر کسی اسسٹنٹ کمشنر کو کوئی کچھ کہہ دے تو چیف سیکرٹری اس کے دفاع میں کھڑا ہوجاتا ہے۔

مطلب سب طاقتوروں کی اپنی ایک دنیا ہے جس میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ہیں۔سیاست دان اس ملک کا واحد طبقہ ہیں جو ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے ہیں اور اس کی وجہ مصنوعی لیڈر شپ ہے۔
قوموں کی زندگی میں ستر سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ وہی چین جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ افیون پی کر مست رہتے ہیں آج دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بننے جارہا ہے۔

قوموں کی تقدیر بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے بس اس کے لیے نیت اور فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے. کراچی کے ضمنی الیکشن میں شاید بہت سے لوگوں کے لیے کچھ خاص نہ ہو لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ اس وقت شدید ترین مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں جب صرف 72 ہزار ووٹ گننے میں 12 گھنٹے لگ جائیں تو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر الیکشن کے نتائج اس بنیاد پر آنا شروع ہوجائیں کہ فلاں جماعت کے آج کل طاقتور حلقوں سے تعلقات اچھے ہیں تو یہ جیتنے والی سمیت کسی سیاسی جماعت کے لیے بہتر نہیں ہے ۔

اس سے وہ عوام میں اپنا تشخص مزید کھودیں گے۔ عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ فیصلے ان کے ووٹ سے نہیں ہورہے ہیں جو ایک الارمنگ صورتحال ہے۔
ہماری ملک کی سیاسی جماعتیں اور لیڈر شپ جیسی بھی ہیں لیکن مسائل کا حل ان کے پاس ہی موجود ہے۔ عوام کا اس سسٹم پر اعتماد بحال کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کا ووٹ ہی حقیقی تبدیلی کا سبب بنے گا اور اس کے لیے انتخابی اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔

ملک کی تمام پارلیمانی جماعتیں اگر انتخابی اصلاحات پر متفق ہوجائیں تو یہ نظام ایک مرتبہ پھر سانسیں لے سکتا ہے۔ انتخابی نظام کو اس قدر جامع بنایا جائے کہ کسی کی مداخلت کا تصور ہی ختم ہوجائے۔ عوام کو جب اس بات کا یقین ہوگا کہ ان کا ووٹ چوری نہیں ہورہا تو وہ ناقص کاکردگی دکھانے والوں کا اپنے ووٹ کے ذریعہ کھل کر احتساب کریں گے اور سیاسی جماعتوں کی بھی مجبوری ہوگی کہ وہ ڈلیور کرکے دکھائیں کیونکہ ان کے اقتدار کا راستہ پھر کوئی ڈیل نہیں عوام کے حقیقی ووٹ ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :