رحمت اللعالمین کے ظالم امتی

منگل 7 دسمبر 2021

Mohammad Faisal

محمد فیصل

سری لنکا کو میں سنتھ جے سوریا ،رانا ٹنگا،اروندا ڈی سلوا ،کمارسنگاکارا اور ان جیسے بڑے کرکٹرز کے حوالے سے جانتا تھا لیکن آج میرے ہم وطنوں نے "غیرت ایمانی" کا ثبوت دیتے ہوئے مججے  ایک اور سری لنکن پریانتھا کمارا سے ملوایا ہے جس کا سوختہ بدن ہمارے معاشرے کے لیے ہمیشہ کلنک کا ٹیکہ بنارہے گا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں نہ کوئی2 سال کی کم سن بچی بھیڑیوں سے محفوظ ہے اور نہ ہی ہم ملازمت کے لیے آنے والے کسی غیر ملکی کو تحفظ کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

ہم یہاں خود عدالت لگاتے ہیں ، فیصلہ سناتے ہیں اور پھر سزا بھی دے دیتے ہیں۔۔یہ کیسی ریاست مدینہ ہے کہ جہاں اکثریت محفوظ ہے اور نہ ہی اقلیت اور یہ کیسی تبدیلی ہے کہ جہاں حکمران ہر دوسرے دن  کسی واقعہ پر شرمندہ ہورہا ہو۔

(جاری ہے)


نفرت کے جو بیج آج سے چند دہائیوں قبل بوئے گئے تھے اب ہم ان کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے چکے ہیں جہاں صرف انتہا پسندی کا بیوپار ہورہا ہے۔

ایک دوسرے کے لیےکافر کافر کے نعرے لگاتے ہوئے ہم اتنے اذیت پسند ہوگئے ہیں کہ ہمارے لیے برداشت کا لفظ اپنے معنی کھوبیٹھا ہے اور ہم مکالمے کو بھول کر گردن اڑانے پر پہنچ گئےہیں ۔آج یہاں پریانتھا کمارا قتل نہیں ہوا، آج یہاں کسی کافر کو اذیت ناک موت نہیں دی گئی بلکہ آج ہم نے فیصلہ سنادیا ہے کہ اس ملک میں ہم مذہب کے نام پر اپنے فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کل جب اس گھناٶنے عمل کے ملزمان پکڑے جائیں گے تو ان "مجاہدین" کے تحفظ کے لیے ایک گروہ کھڑا ہوجائے گااور ہماری کمزور ریاست ہمیشہ کی طرح طاقت کے سامنے سرینڈر کردے گی۔


پریانتھا کمارا کا قصور کیا تھا ؟ کہاجارہا ہے کہ اس نے کوئی مذہبی پوسٹر دیوار سے اتاردیا تھا جس پر جنونی ہجوم نے اسے توہین مذہب کا مجرم قرار دے دیا اور ایک جیتے جاگتے انسان کو اپنی نام نہاد محبت کی بھینٹ چڑھادیا۔چلیں ہم ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا تھا تو سوال یہ ہے کہ اس کو سزا سنانا کسی ہجوم کا کام کیسے ہوسکتاہے ؟
یہ ہمارے ملک میں پیش آنے والا پہلا واقعہ نہیں اور مجھے یقین ہے کہ آخری بھی نہیں ہے۔

۔ہمیں ابھی اس سے مزید ہولناک واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ابھی نفرت کی یہ آگ کیا کیا گل کھلائے گی اس کاہمیں اندازہ ہی نہیں ہے۔پریانتھا کمارا جب پاکستان آیا ہوگا تو اسے بتایا گیا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے ملک جارہا ہے اور مسلمانوں کے نبی ص تو پتھر کھاکر بھی دشمنوں کو دعائیں دیتے تھے۔اس کو لگا ہوگا کہ وہ ایک ایسے ملک جارہا ہے جہاں کے رہنے والے اس مذہب کے پیروکار ہیں جس میں کسی کے لیے مسکرادینا بھی سنت ہے اور وہ ان مسلمانوں کے بیچ میں جارہا ہے جن کے مذہب میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی مکمل آزادی ہے۔

۔
میں ان لمحات کو محسوس کرنے کی کوشش کررہا ہوں جب پریانتھا کمارا کی طرف ہجوم بڑھ رہا ہوگا تو وہ کیا سوچ رہا ہوگا ؟ اسے یقیناؐ اپنے بیوی بچے بھی یاد آئے ہوں گے۔ اسے وہ لوگ بھی یادآئے ہوں گے جنہوں نے سری لنکا میں اس کے پاکستان جانے کی مخالفت کی ہوگی۔وہ ہجوم کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے خوف کے عالم میں شاید یہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے ؟ اور پھر جب اس کے جسم سے کسی جنونی کا پہلا ہاتھ ٹکرایا ہوگا تو اس نے یقیناؐ رحم کی بھیک بھی مانگی ہوگی لیکن اسے یہ نہیں علم تھا کہ "عاشقوں" کا یہ گروہ جہل کی پیداوار ہےاور جہل سے خیر کی امید رکھنا عبث ہے۔

اس نے شاید آخری سانسیں لیتے ہوئے انہیں پاک ہستیوں کا واسطہ بھی دیا ہواور پھر ہر امید ختم ہوتے دیکھ کر اس نے سوالیہ نظروں سے ہجوم سے پوچھا ہو کہ تمہارے نبی ص تو رحمت اللعالمین تھے تم ان کے امتی ہو کر اتنے ظالم کیسے ہوگئے ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :