پاکستان میں اقتصادی خسارہ اور اسے کم کرنے کا حل

جمعرات 28 مئی 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

چین 1949 میں ملکہ برطانیہ سے آزاد ہو گیا اس وقت ماؤزے تنگ ہی آزادی کے لیڈر تھے برطانیہ نے آزادی تو دے دی مگر جاتے جاتے آٹھ ارب برطانوی پاؤنڈ کا قرض بھی دے دیا گیا ماؤزئے تنگ نے اپنی کابینہ کا اجلاس بلایا اور قرض کا معاملہ ان کے سامنے رکھا اور ان سے خطاب میں کہا کہ ہم آزاد تو ہو گئے ہیں مگر حقیقی آزادی اس وقت حاصل ہو گی جب ہم قرض چکا دیں گے مجھے اس کا حل چاہیے کیونکہ ہمارے ملک کی اقتصادی حالت ایسی نہیں کہ ہم قرض ادا کر سکیں گے قرض تو سود کے ساتھ ہے اس میں تو اضافہ ہی ہو گا۔


 کابینہ میں مختلف آراء آئیں مگر اتفاق نہ ہو سکا آخر میں ایک رائے آئی کہ ہم ایک ارب پاؤنڈکا گوشت باہر سے منگواتے ہیں اگر یہ منگوانا بند کر دیا جائے اور یہ ایک ارب پاؤنڈ قرض ادا کر دیاجائے تو آٹھ سال میں ہم ا س قر ض جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس رائے پر اتفاق ہو گیا ملک میں آٹھ سال کے لئے گوشت کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔

ان آٹھ سالوں میں چینی قوم نے صرف گوشت منگا کر نہیں کھایا ملک میں جوملا وہ سب کچھ کھایا۔ ملک میں مینڈک، چھپکلی،چوہا وغیرہ کے فارم بن گئے جب آٹھ سال گزر گئے اور قرض ادا ہو گیا تو گوشت کی درآمد پرسے پابندی تو ختم کر دی مگر ساتھ ہی گوشت درآمد کر کی ضرورت ہی نہ رہی کیونکہ عوام انہی چیزوں کے عادی ہو چکے تھے۔
 اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان میں ایس بہت سی چیزیں باہر سے نہ منگوائیں جن پرزرمبادلہ کے طور پر اربوں ڈالر ادا کر نے پڑتے ہیں اس سے ہماراقرض بہت جلد ادا ہو سکتا ہے۔

مثلاًہم لگژری گاڑیاں 31.1 بلین ڈا لر، برکی مشینری 4.3 بلین ڈالر، تیل سمیت معدنی ایندھن 17.5 بلین ڈا لر اور کمپیوٹر سمیت مشینری 31.1بلین ڈالر کا سامان ہم باہر سے منگواتے ہیں اس کے علاوہ پارلر کا سامان گھر کی آرائش کا سامان بھی باہر سے منگواتے ہیں اگر یہ سامان باہر سے نہ منگوائیں یا کچھ اشیاء مثلاًلگژری گاڑیاں ہی باہر سے نہ خریدیں بلکہ ملکی سامان استعمال کریں اس سے زر مبادلہ کی بھی بچت ہو گی اورملکی صنعت کو زیادہ فروغ مل سکے گا۔

ویسے اگر پچھلے پانچ چھ سال کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کا جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری امپورٹ ایکسپورٹ سے ہمیشہ زیادہ ہی رہی ہے جیسا کہ درج ذیل جدول سے ظاہر ہے۔ 
 سنہ ایکسپورٹ امپورٹ فرق
2014-2015    2400000.0 00.0 46000 -2200000.0

2015-2016    2200000.0 4700000.0 -2500000.0

2016-2017    2200000.0 5600000.0 -3400000.0

2017-2018    2600000.0 6700000.0 -4100000.0

2018-2019    3200000.0 7400000.0 -4300000.0 
 یہ رقوم پاکستانی روپوں میں ہیں 
 اگر چند سال کے لئے صرف لگثری گاڑیاں ہی باہر سے نہ منگوائی جائیں تو ملک کا اقتصادی بجٹ متوازن ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :