اعتماد کا ووٹ

منگل 21 جولائی 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

حضرت علی  کی شہاد ت کے بعدحضرت امیر معاویہ  کو اپنی خلافت مکمل کرنے کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت تھی ۔کیونکہ کچھ علاقے میں حضرت امیر معاویہ کی خلافت تھی اور باقی حصے میں حضرت علی خلیفہ تھے ۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن  خلیفہ بنے۔ حضرت امیر معاویہ نے حضرت حسن کو اپنے حق میں دستبردار ہونے اور ان کو اعتماد کا ووٹ دینے کی پیشکش کی ۔

کیونکہ حضرت امیر معاویہ  ،حضرت عمر  کے زمانے سے حکومت میں تھے سب سے پہلے حضرت عمر  نے حضرت امیر معاویہ  کو گورنر مقرر کیا تھا ۔ اور پھر حضرت علی  کی خلافت میں حضرت امیر معاویہ کے بھائی زیاد بن سفیان  فارس میں گورنر تھے ۔ ان وجوہات کی بنا کر حضرت حسن نے حضرت امیر معاویہ کے حق میں ووٹ دیا اور خود خلافت سے دستبردار ہو گئے ۔

(جاری ہے)

حضرت امیر معاویہ  نے بیس سال حکومت کی ۔اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا تھا ۔ یزید نے اپنی خلافت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت امام حسین  کی خدمت میں مختلف ذرائع سے قاصد بھجنے شروع کر دیے کیونکہ یزید کا کردار اسلامی نہیں تھا اس کا میعار اپنے والد کے مقابلے میں منفی تھا ، جس کی وجہ سے حضرت امام حسین  نے ان کے حق میں اعتماد کا ووٹ نہ دے کر یزید کو خلیفہ اور حاکم ماننے سے انکار کر دیا ۔

بات کچھ آگے بڑھی تو یزید نے مدینہ منورہ کے گورنر کوحکم دیا کہ حضرت امام حسین  کو گرفتار کر کے لایا جائے ۔ اس پر حضرت امام حسین  اپنے خاندان کو لے کر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔ وہاں سے کربلا چلے گئے آپ  نے جان دے دی لیکن یزید کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیا ۔ یزید کیا تھا ، یزید اسلامی اقدار سے دور تھانماز کبھی کبھی پڑھتا تھا شرا ب بھی پی لیتا تھا ناچ گانے کی محفل بھی سجا لیتا تھا، لیکن عوام کا پیسہ نہیں کھاتا تھا اور نہ ہی کمیشن لیتا تھا بیت المال کو ہڑپ نہیں کرتا تھا غیر مسلم ممالک میں اسکی کوئی پراپرٹی نہیں تھی ۔


ہم ستر (۷۰ ) سال سے ووٹ ڈالتے آ ر ہے ہیں ہم نے یہ کبھی نہیں سوچاکہ ہم جس کو ووٹ ڈال رہے ہیں اس کا اقدار اسلامی ہے !کیونکہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں ہم جسے لیڈر مان رہے ہیں وہ کوئی پڑھا لکھا عالم فاضل (PHD/Prof)ہے اس کو حرام حلال کاپتہ ہے اور اس پر عمل بھی کر تا ہے یہ شخص چور، ڈاکو یارسہ گیر تو نہیں اس نے بنک سے ادھار لے کر واپس کردیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ بنک سے جس پراپرٹی پر قرض لیا ہے اس میں آگ لگنے کا ڈرامہ رچا کر قرض معاف تو نہیں کروایا ۔

ہم ووٹ ڈالتے وقت ان باتو ں کا کوئی خیال نہیں کرتے ہم ووٹ اسلامی طریقے سے نہیں ڈالتے بلکہ ہم ووٹ ڈالتے ہی اس شخص کو ہیں جو لچا لفنگا ہو تھانے کچہری میں ہمارے غلط کام میں ہماری مدد کر سکے ہمارے ا ن پڑھ اور نالائق بچوں کو غلط طریقے سے کسی نہ کسی طرح نوکری دلا سکے۔ ہم ووٹ ڈالتے ہیں برادری دوستی رشتہ داری بڑے عہدہے کے دباؤ پر کسی چوہدری وڈیرے کے دباؤ پر کسی لالچ میں مثلاً کسی نے گھر کے آگے سڑک بنوانی ہے کسی نے بجلی لگوانی ہے کسی نے ٹیکس معاف کرواناہے کسی نے اپنے نا لائق لڑکے کو اچھی پوسٹ پربھرتی کروانا ہے الیکشن کے دنوں میں امیدوار گاڑی بھر کر مختلف قسم کے کپڑے لاتے ہیں اور پسماندہ علاقوں میں فی گھر ایک ایک یا دو دو تھان بانٹ جاتے ہیں اور جاتے ہوئے کہ جاتے ہیں کہ ہمارا انتخابی نشان یاد رکھنا رات ورات پیسے دیے جاتے ہیں۔

جب الیکشن مہم ختم ہو جاتی ہے اسکے بعد ووٹوں کے سودے ہوتے ہیں پوری برادری خرید لی جاتی ہے۔ یعنی اپنے ضمیر فروخت کیے جاتے ہیں ،۔ اس کے نتیجے میں جو حاکم بنتے ہیں وہ پھر ایسے ہی ہوتے ہیں جس طرح کا بیج بو گے ا سی طرح کی فصل پیدا ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :