میں کس سے پوچھوں دیوان سنگھ سے یا جاوید چوہدری صاحب سے ۔۔؟

بدھ 29 ستمبر 2021

Mohammad Irfan Chandio

محمد عرفان چانڈیو

کتابیں  پڑھنے کا شوق شروع سے ہی ذرا کم تھا کبھی غربت نے اس طرف توجہ جانے ہی نا دی۔ مگر کرتے کراتے یونیورسٹی پہنچے تو چند یونیورسٹی کے پروفیسروں نے کتابوں کی طرف توجہ دلوائی تو کتاب پڑھنے کے ذائقے سے لطف اندوز ہوا. آج سے کوئی چار ماہ پہلے  دیوان سنگھ کی ایک کتاب "ناقابلِ فراموش" پڑھنے کا موقع ملا۔ کتابیں پڑھنے والے حضرات دیوان سنگھ سے واقف ہوں گے. ایک اعلیٰ صحافی اور تحریر لکھنے کا ہنر رکھنے والی اس شخصیت نے اپنی صحافتی زندگی پر کتاب "ناقابل فراموش" لکھی  اس کتاب کو پڑھنے کے بعد  انسان میں صحافت کا ایک جذبہ سمندر کی تیز لہروں کی طرح ٹھاٹے مارنا شروع کر دیتا ہے اپنی بھی ایسی ہی حالت تھی خصوصاً  دیوان صاحب کا یہ واقع پڑھنے کے بعد کہ جب ان کو جرنلزم   کا شوق ہمدم اخبار کے دفتر لے گیا اور ہمدم اخبار کے ایڈیٹر سید جالب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے شوق کا اظہار کیا مگر جالب صاحب نے معزرت کرتے ہوئے کہا ابھی کوئی جگہ خالی نہیں دیوان سنگھ  نے پھرعرض  کیا تو بطور چپڑاسی مجھے رکھ لیں دن بھر کام کے ساتھ ساتھ اردو جنرلزم بھی سیکھ لوں گا جالب صاحب نے پھر معزرت کی کہ ہمارے پاس چپڑاسی کی بھی کوئی جگہ خالی نہیں ہے دیوان صاحب نے اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہا کیا آپ کو میرے مفت کام کرنے پر کوئی اعتراض ہے۔

(جاری ہے)

۔؟ جالب صاحب مسکرائے اب بھلا مفت کام لینے میں کیسا انکار اور یوں دیوان سنگھ نے بغیر  تنخواہ کے  سیکھنےکے عمل کا آغاز کر دیا شوق کے ساتھ ساتھ انکو پیٹ  بھرنے کے لیے رات کو میڈیکل سٹور پر کام کرنا پڑتا تھا ۔ دیوان سنگھ کے اس واقعے نے  مجھے میری منزل کی راہ دکھا دی    کچھ ماہ بعد جاوید چوہدری صاحب کا کالم میری آنکھوں سے گزرا جس کا ٹائیٹل تھا کہ "آپ نوکری کیسے کر سکتے ہیں " جاوید صاحب نے بھی دیوان سنگھ کی باتوں کو اپنے الفاظ کے موتی لگا کر  اپنی تحریر کو کچھ یوں بیان کیاکہ اگر آپ کو نوکری کرنی ہے تو بس کسی بھی ادارے میں جا کر مفت کام کرنا شروع کر دیں اور کام سیکھیں ابھی دیوان سنگھ کی کتاب کا اثر ختم نہیں ہوا تھا کہ اب یہ کالم بھی میں نے پڑھ لیا اب یہ دونوں تحریریں ایسی تھیں جنہوں نے میری حالت بلکل اس عاشق سی بنا دی جو اپنے محبوب کو دیکھنے کے لیے ہر وقت بے تاب رہتا ہے میں بھی اب صحافتی ادارے ایسے تلاش کررہا تھا بہرحال مشکل سے، اگر لفظوں کو آزادی دوں تو بولوں گا منتوں سے ایک ادارے میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھنے کا موقع مل گیا میں نے بھی دیوان صاحب کا فارمولا اپلائی کیا دن کو چینل میں کام اور رات کو ایک جگہ نوکری کر لی تاکہ شوق کے ساتھ ساتھ پیٹ کا بھی خیال رکھا جا سکے گزرتے گزراتے تین ماہ گزر گئے مگر اب سوال جو اکثر رات کو میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور سونے نہیں دیتا دیوان سنگھ صاحب تو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے اور چوہدری صاحب سے میں ملنے سے قاصر ہوں کیونکہ میرے ماتھے پر ابھی جونئر کا لیبل ہے شاید ان کے پاس ملنے وقت نا ہو مگر اب یہ سوال میں کس سے پوچھوں کہ بغیر تنخواہ کے میں نے کام سیکھنا تو شروع کر دیا ہے  لیکن مجھے اگر سینیئر سے کچھ پوچھنا ہو اور پانچویں دفعہ پوچھنے پر آپ کو سینیئر کی طرف سے آنکھیں دیکھنے کو ملیں تو کیا کروں؟ اور اگر آپ نے نیوز پیکیچ بنانا ہو یا ایز لائیو کرنا ہو پوچھنے پر جواب ملے ابھی آپ کے لیے اوپر سے اجازت نہیں ہے تو پھر صبر کے علاوہ کیا کیا جائے۔

۔؟ اور بغیر خوشامد کے اپنے سینئر کے لحجے، باتیں کیسے برداشت کروں۔۔؟   خوشامد اور تعصب کی تھیوری میں کہاں سے سیکھوں۔۔؟ کیونکہ نا دیوان سنگھ، نا چوہدری صاحب  نے  ان چیزوں کا ذکر کیا اور ناں یونیورسٹی نے خوشامد نام کی کوئی تھیوری پڑھائی جس سے آپ جلد سیکھ بھی سکتے ہیں اور ترقی کی راہ بھی آپ کے لیے ہموار ہو سکتی ہے۔ اب یہ سوال میں کس سے پوچھوں دیوان سنگھ سے پوچھوں یا جاوید چوہدری صاحب سے ۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :