ہاں وہ چہرے نہیں پڑھ سکتی ہے

بدھ 28 اپریل 2021

Mohammad Irfan Chandio

محمد عرفان چانڈیو

خدا نے انسان کو مختلف حالتوں اور رنگوں  میں زمین پر پھیجا۔ کسی کا کشکول صحت کی تمام نعمتوں سے بھر دیا تو کسی کا کشکول کچھ نعمتوں سے محروم رکھا۔ مگر یہ ذاتِ خدا وندعالم کا اصول ہے کہ اگر وہ انسان کو کسی نعمت سے محروم رکھتا بھی ہے تو وہ اس کا نعمل البدل ضرور عطا کرتا ہے ضروری بھی نہیں کہ ہر انسان تمام خاصیتوں کے ساتھ مکمل ہو خدا نے ہر انسان میں ایک مخصوص خوبی رکھی ہوتی ہے کوئی اچھا بول لیتا ہے تو کوئی اچھا لکھ لیتا ہے اور کوئی اچھے سننے کی خوبی رکھتا ہے مگر اس خوبی کو پہچاننے کا ہنر صرف ایک قدر شناس کو ہی ہوتا ہے بلکل ایسے جیسے ہیرے کی شناخت جوہری کو ہوتی ہے اسِطرح قوموں کی ترقی کا تالہ جس چابی سے کھولتا ہے وہ قوم کے جوانوں میں پائی جانے والی خوبی ہوتی ہے اور یہ خوبی قوموں کی ترقی کے تالے کی چابی کا کام دیتی ہیں مگر شرط یہ ہے چابی کی شناخت رکھنے کا ہنر ان قوموں کے اقتدار اعلی  میں موجود ہو جو اس چابی کو صحیح تالے پر استعمال کر سکے۔

(جاری ہے)


 پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان طالبہ ارم شبیر جو ظاہری آنکھوں سے محروم ہیں  جو ظاہری آنکھوں سے کتابوں کے ساتھ چہرے بھی نہیں پڑھ سکتی مگر اس باہمت خاتون نے اپنی آنکھوں کو اپنی منزل کے راستے میں پڑے ایک چھوٹے سے پتھر سے تشبیہہ دیتے ہوئے راستہ تبدیل کرنے کے بجائے اس سوچ کے پتھر کو پائوں سے دور کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھنا سیکھا اور نابینا ہونے کے باوجود انہوں نے ماسٹرز کا امتحان پاس کرنے کے بعد این ٹی ایس کا بھی امتحان پاس کیا این ٹی ایس محکمے کا اصول ہیں کہ ٹیسٹ پاس کرنے والے طلباء  کو انٹرویوز کے لیے ایک خط کے زریعے اطلاع دی جاتی ہے ارم شبیر کو بھی وہ خط ملا مگر انٹرویو کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد، اب خط کو پوسٹ دیر سے کیا گیا یہ دیر سے ملا مگر ملا تاریخ گزر جانے کے بعد ہی ، مگر ارم شبیر حالات سے لڑنے والی باہمت خاتون نے  فوراً این ٹی ایس کے محکمے سے رجوع کیا مگر کوئی مؤثر جواب نہ ملنے  پر ارم نے عدالت کی طرف رخ کیا ویسے تو ہمارا عدالتی نظام دنیا میں سست ہونے کی وجہ سے مشہور ہے مگر ارم کے وقت فیصلہ جلدی اور ارم کے حق میں سنا دیا گیا اور ارم شبیر انٹرویو میں بھی پاس ہو گئیں۔

مگر اس بوسیدہ نظام میں ظاہری آنکھیں رکھنے والوں کو ارم کے ظاہری نابینا ہونے سے مسئلہ ہو گیا۔ قوم کی بیٹی ارم شبیر جو بغیر دیکھے کتاب کے الفاظ کو اور ان الفاظ سے بننے والے جملوں کو اور جملوں سے بننے والی کہانیوں کو اپنے ذہن کی تجوری میں علم کے خزانےکو اگر محفوظ کر سکتی ہے تو اس خزانے سے ہزاروں بچوں کو مستفید بھی کر سکتی ہے ہاں وہ ظاہری آنکھوں سے لوگوں کے ظاہری چہرے تو نہیں پڑھ سکتی مگر دماغ کی بصیرت سے لوگوں کے دماغ ضرور پڑھ سکتی ہیں یہ مسئلہ صرف ایک ارم کے گرد نہیں گھوم رہا بلکہ ارم جیسی ہزروں اپنی اپنی خوبی اپنے  پاس ایک خزانے کی مانند محفوظ کئے ہوئیں ہیں کہ شاید اس بسماندہ نظام میں کوئی ان کے  خوبی کو پہچان سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :