واجب القتل

منگل 9 نومبر 2021

Mohammad Omer Bilal

محمد عمر بلال

ناسازیِ طبیعت کی وجہ سے آج میں یونیورسٹی نہ جا سکا، شام کو ریحان کا فون آیا جو کہ میرا کلاس فیلو ہے ، فون اٹھاتے ہی ریحان کی آواز سنائی دی، خطیب  یار غضب ہوگیا آج   اپنے انگریزی کے سر نے آج مذہب کے بارے میں بہت مغلظات بکی ہیں، عقیدہ رسالت پر بھی انکے عجیب وغریب عقائید ہیں، وہ شخص توہین مذہب اور رسالت کا مرتکب ہوا ہے اور اس کے علاوہ وہ جامعہ میں مخلوط پارٹی ، گانے اور ڈانس کے حق میں بھی ہیں میری نظر میں اسے زندہ رہنے کا کوئی  حق نہیں ، ریحان نے اپنی بات ختم کی ۔


یہ سنتے ہی میرا خون کھول اٹھا اور سر خالد کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک فلم چل پڑی۔
سر خالد کی ہی وجہ سے ابھی تک میں ڈگری مکمل نہ کرپایا  تھا ، گزشتہ سمسٹر میں میری حاضری پوری نہ ہونی کی بنا پر سر خالد نے مجھے فائنل پیپر میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی تھی اور وہ مضمون میں اس دفعہ دوبارہ پڑھ رہا تھا، میرے باقی سب دوست ڈگری مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھ چکے تھے لیکن میں صرف سر خالد کی وجہ سے ابھی تک ڈگری مکمل نہ کر پایا تھا جس کا مجھے شدید دکھ اور غصہ تھا۔

(جاری ہے)


میں بس موقع کی تلاش میں تھا کے کسی طرح سر خالد سے بدلہ لیکر اپنے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا کر سکوں ، جوکہ مجھے مل چکا تھا۔
جو شخص میرے مذب یہ میرے نبی کی توہین کرے میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا، میں سر خالد کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر چکا تھا ، میں اپنا پستول اٹھانے کے لیے مخصوص دراز کی جانب بڑھا تو میرے نظر الماری میں رکھے قرآن پاک پڑھی، میں نے سوچا کیوں نہ قرآن سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی شخص توہین مذہب کرے تو اسکا کیا کرنا چاہیے تو میرے نظر پارہ نمبر ۔

۔۔۔۔۔۔۔ کی سورہ : المائیدہ کی   آیت نمبر ۔۔۔۔۔۔ پر پڑی  جس سے مجھے پتہ چلا کہ  جو کوئی کسی کو قتل کرےتو یہ ایسے ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔
اسکے ساتھ ہی میری نظر حدیث مبارکہ کی کتاب میں موجود ایک حدیث پر پڑی جس میں حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:
 اللہ کے نزدیک ساری دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں معمولی چیز ہے۔


(مشکوٰۃ، کتاب القصاص، الفصل الثانی، ج3، ص291، بشری)
یہ سب پڑھ کر میں عجیب تذبذب کا شکار ہوگیا ، کیا میرا رب ، میرا رسول اور  میرا دین مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں ایک شخص کو قتل کر دوں ؟ کیا میں نے ریحان کی بات کی صدیق کی ہے ؟ اگر سر خالد نے واقعی کستاخی رسول یا توہینِ مذہب کی تو کیا مجھ ایک عام شہری کو یہ اختیار پہنچتا ہے کہ میں اپنی عدالت لگا کر اسکو قتل کر دوں ؟ میرے سوالات میرے ذہن میں ہتھوڑے کی طرح برسنے لگے اور پھر ان سوالات کے جوابات کے لیے میں اپنے علاقے کے مفتی صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا کہ اسلام کا پیغام ہے امن اور بھائی چارہ، قتل و غارت اور خون ریزی ہمارے دین کا حصہ نہیں اگر کوئی شخص توہین مذہب کرتا بھی ہے تو بھی ایک عام شہری کو حق نہیں پہنچتا کے وہ اسے قتل کر دے ، اسکے لیے آئینِ پاکستان میں قوانین موجود ہیں اور آئینی ادارے موجود ہیں، ایک عام شہری کو حق نہیں کہ وہ قانون ہاتھ میں لے۔


قانونی نقطہِ نظر جاننے کے لیے میں ایک وکیل صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہر شہری کا ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ   ہے جسکی رو سے ریاست تمام شہریوں کے جان مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور جب  کوئی شخص اپنی عدالت لگا کر کسی کو قتل کر دیتا ہے تو وہ رریاست کی رٹ کع للکارتا ہے جوکہ صریح غیر قانونی اور قابلِ سزا ہے۔ توہینِ مذہب پر باقاعدہ قوانین موجود ہیں اگر کوئی آدمی مرتکب ہوتا ہے تو عدالت اسکا فیصلہ کرے گی ناں کہ ایک عام شخص ۔


وکیل صاحب نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تمام پیرامیٹرز طے کر دیے ہیں اور انہوں نے یہ ہولڈ کیا ہے کہ کسی شخص کو اختیار نہیں کہ وہ قانون ہاتھ میں لے، یہ نہ صرف قانون بلکہ دین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
کیا سر خالد واجب القتل ہیں ؟ بالکل نہیں مجھے جواب مل چکا تھا ، قرآن و سنت، مفتی صاحب اور ماہرِ قانون کے جوابات سے میرے دل کو تسلی ہوئی اور مجھے یہ احساس ہوا کہ واقعی مجھے یا کسی بھی عام شہری کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ سر خالد یہ کسی بھی ایسے شخص کا قتل کرے، میں نے اللہ کے حضو ر گڑگڑا کر معافی مانگی اور ریحان کو فون ملانے لگا۔


اہم نوٹ:
یہ واقعہ   20 مارچ  2019  کو بہاولپور کے گورمنٹ صادق ایجرٹن کالج میں پیش آیا تھا جہاں ایک خطیب حسین نامی طالبعلم نے اپنے انگریزی کے پروفیسر خالد حمید کو مذہب کے نا م پر قتل کر دیا تھا ، کاش کے وہ طالبعلم یہ تمام کام کر لیتا جو کہانی میں بیان کیے گئے ہیں تو ایک استاد کی جان بچ جاتی)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :