اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

بدھ 22 اپریل 2020

Mohammad Omer Bilal

محمد عمر بلال

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
گزشتہ روز  شاعرِ مشرق  مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 82 ویں برسی عقیدت وحترام سے منائی گئی ۔
انسانی روح کو بیدار کرنے والے شاعر، اصول و ضوابط کی باریکی پرکھنے والے قانون دان اور مسلمانوں کیلئے آزاد ملک کا خواب دیکھنے والے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کو ہم سے بچھڑے 82 برس بیت چکے ہیں۔


 جس پاکستان کا خواب اس عظیم شخص نے دیکھا تھا  وہ محمد علی جناح اور اسکی ٹیم نے اللہ کے فضل سے پورا تو کر دیا اور ایک آزاد اسلامی ریاست قائم  کر دی مگر افسوس کہ جس پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا تھا وہ پاکستان آج موجود نہیں۔
افسوس صد افسوس کہ ہم نے اقبال کے خواب کو محض زمین کے ٹکرے کا حصول سمجھ لیا جبکہ حقیقت میں وہ خواب صرف زمین کے ٹکرے کے حصول کے لیے نہیں بلکے ایک ایسی مملکت کے قیام کے حصول کے لیے تھا جس میں اللہ رب العزت کے احکامات کی پابندی کی جائے، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، جس میں انصاف کا عَلم بلند ہواور جھوٹ  دھوکہ دہی اور فریب کاری کا قلع قمع کیا جائے، جس میں امیر کے لیے بھی وہی قانون ہو جو ایک غریب کے لیے ہے، جس میں بھائی چارہ اور محبت سے لبریز معاشرہ ہو ، جس میں منصف کے انصاف کا پیمانہ سب کے لیے یکساں ہو ، جس میں ہر شخص کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

(جاری ہے)


مگر صد ہائے افسوس کے ہم نے اقبال کے اس خواب کو ملیا میٹ کر دیا بلکے اگر یوں کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ ہم نے اقبال کے خواب کی دھجیاں اڑا دیں اور پچھلے بہتر سالوں میں ہم نےاپنے ملک کا تہہ دل سے نقصان کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور اس پر ستم یہ کہ ملکی برائیوں کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں اور ملکی اداروں پر ڈال کر ہم خد کو بر الذمہ قرار دے دیتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، گزشتہ بہتر سالوں میں ہم سب کچھ بنے ہیں سوائے ایک قوم بننے کے۔


ہر شخص ملکی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہا ہے، کیمیکل ملا دودھ بھی ہم بیچتے ہیں، ذخیرہ اندوزی جیسا گناہ اور جرم بھی ہم کرتے ہیں، ملاوٹ، دھوکہ دہی، فریب کاری، کرپشن ،قتل و غارت ، ڈاکہ زنی  میں کوئی ہمارا ثانی نہیں، ۴ سال کی بچی بھی ہماری حوس سے محفوظ نہیں اور گالیاں ہم نکالتے ہیں مغرب کو۔
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تُو
مجھ کو تو گِلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے
میرے ملک کو کبھی سیاستدانوں نے لوٹا تو کبھی بیوروکریٹس نے، کبھی مولوی حضرات نے اسلام کے نام  ملکی مفاد کا سودا کیا تو کبھی لال لال کے نعروں اور جھنڈو ں نے اس ملک کی کی جڑیں کاٹیں اور کبھی اسلامی غیرت کےنام پر مشال خان کو سرِبازار قتل کیا گیا۔


میں کیا کیا گنواوں کہ میرے ملک کے ساتھ کیاکیا برتاؤ کیا گیا، سب نے حسبِ توفیق اس ملک کو لوٹا ہے غداری کی اور یہ لوٹنا صرف پیسوں کا نہیں، بلکے جہاں جہاں ملکی مفاد کو لات مار کر پیچھے کیا گیا اور ذاتی فائدہ حاصل کیا گیا تو وہ بھی ملک سے غداری اور کرپشن کے زمرے میں آتا ہے، ہم سب نے اپنا محاصبہ کرنا ہے کہ کیا ہم بھی کہیں اپنی اپنی جگہ پر سابق وزیراعظم کا کردار تو نہیں ادا کر رہے جسکوکرپشن اور دھوکہ دہی کے جرم میں نا اہل کیا گیا اگر جواب ہاں میں ہے تو ہم میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔


اور اب موجودہ عالم یہ ہے کہ ہر شخص بھوکا ہے، کوئی دولت کا طلبگار ہے تو کوئی شہرت کا بھوکا  کوئی طاقت کا بھوکا ہے تو کوئی ہوس کا پجاری،  تو کوئی کرسی کا بھوکا   قحط و رجال بڑھتا چلا جا رہا  ہم اپنے زوال کے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔
ہم تبدیلی تو چاہتے ہیں مگر خد کو تبدیل کرنا ہمیں گوارا نہیں، اور خد کو تبدیل کیے بغیر تبدیلی کی امید لگانا ایسے ہی ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت سے پھل وپھول کی امید رکھنا۔


آج ہم اقبال کے نام لیوا تو ہیں مگر اقبال کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنا ہمیں گوارا نہیں اور اسکے عظیم خواب کی لاج رکھنا ہم باعثِ ندامت سمجھتے ہیں۔
اقبال نے ہمیشہ تبدیلی کے لیے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا درس دیا ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکان زندگی
مولانا ظفر علی خان نے قرآنی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
آج اقبال کی روح کانپتی ہوگی کہ جس آزاد ملک کا خواب اس نے دیکھا تھاآ ج وہ ملک پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور زنجیریں ہیں ذاتی مفادات کی زنجیریں۔


آئیے ملکر ایک قوم بنیں جسکے دل میں ملک و قوم کی محبت صحیح معنوں میں موجود ہو تاکہ اقبال کےخواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :