ڈارون کا نظریہء ارتقا اور مولانا رومی رحمتہ اللہ‎‎

منگل 30 نومبر 2021

Mohammad Ukasha Niazi

محمد عکاشہ نیازی

نظریہ ارتقا کا نام لیتے ہی ہمارے سامنے ایک مخصوص نام گھوم جاتا ہے اور وہ ہے ، چارلس ڈارون ۔  ابتدا سے ہی ہمیں ڈارون کے نظریہ ارتقا (Darwin's theory of Evolution) کے بارے میں بہت کچھ سننے کو مل رہا ہے۔
تاہم، ڈاکٹر اقبال صاحب نے اپنی کتاب The Development of Metaphysics in Persia (جس کا اردو ترجمہ میر حسن الدین نے 'فلسفہ عجم' کے نام سے کیا ہے) میں نویں صدی کے مشہور اسکالر جاحظ کو ارتقائی نظریے کا بانی قرار دیا ۔

گو اِس بات سے ڈارون کے کام کی صحت پر اثر نہیں پڑتا کہ اُس کا کام اپنی جگہ پہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ تحقیق کا نیا زاویہ کھولنے میں مدد ملی ۔ (جاحظ کے بارے میں کئی مضامین تفصیل سے مختلف سائٹس پر موجود ہیں). اِس سلسلے کا ایک اور قابلِ ذکر نام اِبن مسکویہ (Miskawayh) کا ہے ۔

(جاری ہے)

اِن کی اکثر تصنیفات میں اشیاء کے کون و فساد اور عوامل کے عمل پذیر ہونے میں شامل محرکات کا ذکر ملتا ہے مگر ابن مسکویہ کا کام ترجیحی طور پر علمِ اخلاق کی طرف ہی راغب رہا۔

البتہ ان سب کے علاوہ مسلم تاریخ میں ایک ایسا نام ضرور سامنے آیا، جس کے ارشادات نے اِس تحقیق ہائے کار کو مخصوص نہج عطا کی اور کسی حد تک بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا۔ یہ شخصیت تیرھوں صدی عیسوی کے آغاز میں جنم لینے والے مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ کی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ کا نظریہ اِس 'مروجہ ارتقا' کے نظریہ سے کس حد تک میل کھاتا ہے؟ جیسے کہ قارئین کے علم میں ہوگا کہ اول اول مولانا محض درس و تدریس میں مشغول رہے اور ایک عالمِ ظاہری کی حیثیت سے زندگی گزاری پر جب آپ کی ملاقات ایک اہلِ درد و صاحبِ عشق یعنی حضرت شمس تبریز سے ہوگئی تو کایا پلٹی، اور عشقِ حقیقی کی آگ آپ کے اندر سلگنے لگی۔

اپنی اسی نئی حیثیت کے بارے میں  مولانا خود فرماتے ہیں۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
 تا  غلام شمس تبریزی نہ شد
مولانا نے جہاں علمِ معرفت کے متعلق ایک کرشماتی کام کیا وہیں اُن کے قلم سے بعض منطقی مضامین کا بھی عاشقانہ پہلو سامنے آیا۔ اُسی میں سے ایک ارتقا کا نظریہ بھی تھا۔ جناب رومی کا جو نظریہ ارتقا تھا، اُس کے متعلق بات کرنے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مولانا کے ہاں عشق و معرفت کی اہمیت ایک یقینی بات کے طور پر ملتی ہے، یعنی کہ اِس میں شک کرنا جہالت یا پاگل پن کہلاتا ہے۔

مولانا  اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات کا قیام عشق کی مضبوط بنیادوں کے زیرِ اثر ممکن ہوا اور یہ کہ عشق و محبت ہی اِس حیات کا مقصود و مطلوب ہونا چاہئیں ۔  پھر چونکہ محبت ایک متحرک اور active عنصر ہے لہذا یہ زندگی  بھی اس لیے ایک متحرک تصور قرار پائی ۔
( حوالے کی لیے یہ چند نظمیں  مثنوی کی ملاحظہ ہوں:         The Mathnawi of Jalal al-Din Rumi, translated by R.A. Nicholson  vol. III, pp. 245-246.,vol. V., p. 231، vol. I, p. 10، vol. I, p. 35., vol. V, p. 231)
اِن تمام تر نظموں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رومی کے ہاں کائنات کا محرکاتی تصور اور انسان اور خدا کے مابین جو تخلیق کاری کا عنصر ہے، وہ عشقِ حقیقی کا متقاضی ہے۔

اہلِ تصوف اس مضمون کا شاید بہتر طور پر سمجھ سکیں، مجھ ناکارہ کے تو سامنے جو نکات آئے بیان کردیے۔
خیر، مولانا رومی اور ڈارون صاحب کے ہاں جو نظریاتی مماثلت ملتی ہے، اُس سے ایک بات تو طے ہے کہ رومی کے عہد میں جس نظریے کو محض (mythical) افسانوی حیثیت حاصل تھی، ڈارون نے اِس نکتے کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور ٹھوس عقلی دلائل سے مہمیز بخشی۔

ڈارون نے  نظریہء ارتقا کو سائنٹفک بنیادوں پر کافی مضبوط بنایا۔
 مگر باوجود ایک ہی بنیادی محرک کے، بعض قیاسات و نکات میں رومی اور ڈارون کے ہاں ہلکا پھلکا اختلاف ملتا ہے۔ چند نکات ملاحظہ ہوں :
مثال کے طور پر ڈارون کا نظریہ صرف حیاتیاتی (biological) نقطہ نظر کے تحت گھومتا ہے جبکہ مولانا کے ہاں اِس نظریہ کی اٹھان ماورائے حیات عناصر یا non- physical elements میں بھی نظر آتی ہے جس سے مولانا کے نظریے کا دائرہ کار زیادہ وسیع اور آپ کے  فنی کینوس میں مزید رنگ بکثرت ملتے ہیں۔


دوسرا نکتہ یہ کہ، ڈارون کے ہاں حیاتیاتی ارتقا (Biological evolution) کا سبب Natural selection یعنی قدرتی چناؤ یا انتخاب  ہے۔  یہاں ڈارون کے ہاں اِس بات پر خاص زور نہیں ہے کہ آیا قدرتی چناؤ کے اِس عمل کو ایک مخصوص میکینزم سمجھا جائے گا یا اِس سب procedure کے پیچھے کوئی شخصیت کار فرما ہے؟۔ بہرحال، اِسی ضمن میں مولانا کا مضمون بھی دیکھ لیجئے ۔ مولانا روم یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حیات کا ارتقا اور افزائشِ دنیا،  عشق کی وجہ سے ممکن ہوپاتی ہے ۔

اُن کے مطابق یہ عشق کی زور آزمائی ہے جس نے زندگی کو کائناتی، ارضیاتی، حیاتیاتی ، فکری اور حتی کہ روحانی بنیادوں پر حرکت دے رکھی ہے۔  خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی انگریزی کتاب  “Rumi, Nietsche and Iqbal,” کے صفحہ نمبر 144 پر رومی کے حوالے سے ایک عبارت نقل کی ہے، حس کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
 "محبت  ہی اِس مادی زندگی کے متحرک ہونے کی وجہ  ہے۔

زمین اور آسمان محبت کے توسط سے گردش میں ہیں۔ یہ محبت نباتات کے لیے نشوونما کا ذریعہ اور اہلِ حواس میں جذبات کا واسطہ ہے۔ یہ محبت ہی ہے جو مادے کے ذرات کو اجتماعیت بخشتی ہے۔ محبت سبزیاں اگاتی ہے اور حیوانوں کو حرکت کرواتی ہے اور اِسی کی بدولت اُن کی افزائش عمل میں آتی یے۔"
اور اب آخری نکتہ یہ کہ ڈارون کے مطابق، ارتقاء صرف جسمانی سطح پر ہوتا ہے اور اِس میں کسی قسم کا خدائی  تصرف شامل نہیں ہوتا۔

ایسے موقع پر، ڈارون  ماورائی طاقتوں اور دیگر مروجہ حقیقتوں (جیسے خدا اور فرشتوں) سے بھی انکاری ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اُس کے مطابق  یہ خدا نہیں ،جس نے نامیاتی چیزوں کو گھٹیا، خستہ اور خام حالت سے نکال کر اعلیٰ اور بہتر صورت میں منتقل کیا ہے بلکہ یہ سب محض قدرتی انتخاب (natural selection) کے تحت عمل میں آیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، انواع کو تخلیق کرنے والی ذات خدا تعالی کی نہیں بلکہ اِس   کا سہرہ فطری اور موجود عوامل، جو پہلے سے ہی حیات میں موجود ہیں (جیسے بھوک ، شہوت، پیاس، مہم جوئی وغیرہ) کے سر جاتا ہے کیوں کہ یہی عوامل حیوانات سے natural selection کا مظاہرہ کرواتے ہیں۔

  دوسری جانب، حضرت رومیٓ  کے ہاں یہ ارتقائی فلسفہ، خدا کے وجود کا نہ صرف احساس دلاتا ہے بلکہ ایک شدید قسم کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا کے وجود سے انکار  ناممکن ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ  خالق کا وجود اِس دنیا میں ارتقاء کی بنیادی شرط ہے اور اِس کے بغیر کسی بھی ارتقاء کا تصور کرنا سراسر وسوسہ ہے۔ یعنی یہ کہ ارتقا تو تب ہوگا، جب مخلوق کا موجود ہونا ثابت ہوگا اور مخلوق کی موجودگی بلا خالق کے بالکل ناممکن ہے۔


 دوسرا، مولانا چونکہ ہمہ وقت محبت کی پڑیا پیش کرتے ہیں لہذا اُن کے لحاظ سے  ارتقاء محبت کی وجہ سے ہوا ہے اور محبت کو  تو محبوب کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ محبوب ہے خدا، جس کے بغیر محبت یعنی کائنات کا وجود ہی ممکن نہیں۔
خدا ہی اس محبت کا بانی  ہے اور وہی خاتم بھی۔
آخر کو یہ محبت ہی کا تو اثر ہے کہ خدائے لم یزل قرن ہا قرن سے انسان کی تشکیل و تکمیل کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی ایک منظم اور احسن انداز میں۔

خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِيۡمٍ
ترجمہ:
کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ (القرآن - سورۃ نمبر 95 التين آیت نمبر 4)۔
نکات میں نے قارئین کے سامنے پیش کردیے ہیں ، اب نتیجہ اخذ کرنا آپ لوگوں کا کام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :