نقل بڑی کہ بھینس!

جمعہ 3 ستمبر 2021

Mohammad Ukasha Niazi

محمد عکاشہ نیازی

کہیں تو کوئی فاش غلطی ہم سے سرزد ہوئی ہے جو تاریخ نے ہمارے ہاتھوں رقم ہونے سے بھی انکار کردیا ہے۔ زندہ قوم- یہ ایک اصطلاح ہے جو اب کثرتِ استعمال اور قلتِ رجال کی بنا پر فرسودہ کہلانے کے قابل ہوچکی ہے۔
ہمارے ضابطے کے بڑوں نے جب بھی زندہ اقوام کی تابندہ صفات کی گنتی کروائی، تو اُن میں مستحکم نظامِ تعلیم کو سرِفہرست جگہ ملی۔

اور  یہ بات ہے بھی سچ کہ ایک قوم کے  زوال کا بنیادی سبب وہ عوامل بنتے ہیں جو تعلیمی استحکام کی عدم موجودگی میں جنم لیتے ہیں۔ اب تعلیم میں استحکام گو کسی بھی معاشرے کی ترقی کو جلا بخشتا ہے، مگر پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مستحکم نظام  ہمارے ہاں ہی کیوں عنقا ہے ؟.
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
اِس سوال کا جواب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

(جاری ہے)

امرِ واقعہ کو ہلکا سے کریدنے سے ہی جواب کی آتشیں سلاخ سامنے ہوگی۔ ویسے بھی یہ بات تو بالکل سامنے کی ہے کسی بھی نظام کا زوال پکڑ لینا اِس بات کی گواہی ہے کہ اُس مخصوص نظام کی جو روح تھی،یعنی جس پہ کُل نظام کی عمارت کھڑی تھی، وہ اب مفقود ہوچکی ہے۔ تعلیم کے بارے میں بات کرتے وقت بھی ہمیں اِسی نکتے پہ نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔چنانچہ اگر ہم  تعلیم کی روح کی تعریف کرنے بیٹھیں تو تمام تر نچوڑ چار حرفوں میں سمٹ آئے گا۔

  اور اُن چار حرفوں پر مشتمل لفظ ہے: 'حکمت'۔
           *وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا*  (سورۃ النسا﴿۱۷۰﴾)
ترجمہ: اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے ۔
عموماً تعلیم کا مطلب یہ سمجھا جاتا ھے"جاننا" مگر حقیقت میں علم سے مراد یہ جاننا ہے کہ میں یعنی طالبِ عالم بہت کچھ نہیں جانتا۔ یہی نہ جاننا مجھ سے "I Want Some More" کا نعرہ لگواتا ہے ۔

جستجوئے علم کی اِس جنونیت کو بھی  حکمت  سے تعبیر دی جاسکتی ہے  ۔ آخر کو ناسمجھی کا ادراک بھی تو ایک طرح کا شعور ہے کہ کم از کم حضرتِ انسان کے اندر تلاشِ مراد جاری رہتی ہے۔ اور یہی شعور اس سے حکمت کے کام کرواتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ فقط تعلیم کا حصول ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ ایک فرد کو اُس تعلیم پر حکمت کے ساتھ عمل کرنا آنا چائیے۔

اور ایسا تب ہوگا جب تعلیم ہمارے سامنے اپنی اصلی روح کے طور پر موجود ہو مگر یوں لگتا ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی روح مجروح ہے۔
اور اب دیکھنا یہ ہے کونسی ایسی چیز ہمارے نظامِ تعلیم میں داخل ہوئی جس نے اِس اہم کارہائے انتظام کے Nucleus کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔
سرِ راہے، اِس عنصر کو تلاش  کرنے  کے لیے ہمیں کہیں زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا بلکہ ساتھ ہی کہ کسی امتحانی سینٹر کا دورہ کرنے کے بعد حقیقتِ زار عیاں ہوجائے گی۔

 
مجھے بڑے افسوس سے یہ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی گراوٹ کا سامان 'نقل' جیسے بے مایہ طریقہ کار کی صورت میں میسر ہے۔
نظامِ تعلیم میں موجود مختلف اعمال میں سے ایک عمل  امتحانات کا ہے جہاں اِس بات کا تعین ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور بعد ازاں ایک طالب علم کو اُس کی *_قابلیت_* کے مطابق سرٹیفکیٹ مہیا کیا جاتا ہے۔

عربی جیسی فصیح زبان میں سرٹیفکیٹ کے لیے ہمیں *شهادة*  کا لفظ ملتا ہے، گویا اِس بات کی گواہی  دے دی گئی کہ فلاں فلاں صاحب اتنے اتنے نمبرات کے حقدار ہیں۔
دل پر ہاتھ رکھ کہ کہیے گا کہ کیا اُس وقت یہ گواہی جھوٹی نہیں کہلائے گی جب اُس فلاں صاحب نے فلاں طریقہء نقل سے اِتنے اتنے نمبر حاصل کیے ہوں؟
اور کیا یہ اُس ذکی الحس طالب علم کے ساتھ زیادتی نہ کہلائے گی جس کی کُل تعلیم کا محرک ہی محنت رہی ہوگی۔

خود سوچیے کہ جب ایک محنتی بچہ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ گریڈ نہ لے سکے گا جو ایک اور طالبِ علم محض نقل کے جدید طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لے اڑے گا تو  کیا اِس  بات کا اثر محنتی طلبا پر نہیں پڑے گا؟  آخر اُن کے دل میں بھی محنت سے جی چرانے کا خیال سر اٹھائے گا، یا نہیں ؟ اِس دوران کیا تعلیمی سرگرمیوں میں شوق کا جنازہ نہ نکل جائے گا؟
 How will you define it all?
  اوپر دیے گئے تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے 'ہاں، یہ سب کچھ ہوگا'۔

یہ جواب نہایت ترش اور کسیلا ہے۔
 نقل کی یہ ابھرتی ہوئی تحریک  کئی اداروں کے ساتھ غداری کررہی ہے ۔ جب نااہل لوگ اہل کار بنتے ہیں تو اہلیت بھی منہ چھپانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایسے میں سر پیٹے نہیں بلکہ جھکائے جاتے ہیں۔
اب جب کہ ایک 'نقل پاس' میڈیکل اسٹوڈنٹ طب کا عملی کام شروع کرے گا تو اِس میں کیا بعید ہے کہ اُس سے کارِ مسیحائی میں لغزشوں پہ لغزشیں سرزد ہوں گیں۔

یہ ڈاکٹر کی بجائے ڈاکو کہلانے کے لائق ہوگا۔اور اُس کی کم علمی کے نتائج کا خمیازہ کئی جانوں کو اپنی روح گنوا کر بھگتنا پڑے گا۔
اِس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نقل کے تمام ممکنہ اسباب کا بتدریج سدِباب کیا جائے۔ بتدریج میں نے اِس لیے کہا کیوں نقل کا رجحان ایک اخلاقی گراوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے  اور اس جیسے Moral Issues کو محض تدریجاً ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔

اُس میں بھی تدریجی عمل یہ ہوگا کہ اربابِ علم کی ذہنیت کو بدلا جائے۔ اُن کے دلوں میں علم و شعور کی حقیقت و افادیت راسخ کی جائے ، اُن کے ذہنوں میں اِس بات کو بٹھایا جائے کہ محنت کرکے عزت سے فیل ہونا، نقل سے حاصل شدہ پوزیشن سے بدرجہا بہتر ہے۔ اِس طرح اُن کی رگ رگ میں نقلِ مضر اور تقلیدِ غیر ضروری کے خلاف نفرت بھر دی جائے، تبھی یہ ممکن ہو پائے گا کہ کاپی پیسٹ کے اِس پیپ زدہ کلچرل زخم کو  ایک مکمل ناسور بننے سے پہلے ہی ہم پھوڑ ڈالیں اور اُس پر ٹنکچر لگادیں۔

اِس کے بعد امید ہے کہ یہ زخم جلد ہی گل سڑ کر صاف ہوجائے گا۔ اور اگر ہم اِس کے برعکس گئے یعنی اندرونی تزکیہ کے بجائے زیادہ توجہ امتحانی سینٹرز میں محض مانیٹرنگ سسٹم لگانے پر صرف کی تو پھر شاید واقعہ کچھ یوں پیش آئے کہ پہلے تو امتحان گاہ کے اندر ہی پرچہ حل کروانے کی جرات کردی جاتی تھی، مگراُب اوپر نصب 'کیمروں' کی رعایت کرتے ہوئے پرچہ باہر ہی باہر  لیک ہوگا اور پھر ایک دفعہ حضراتِ اساتذہ مطمئن انداز میں اپنے طلبا کو تیاری کرواچکیں گے تب طلباء کرام کا بورڈ کا *امتحان* لیا جائے گا۔

خلاصہ کلام یہ رہا کہ خارجی نظام کی درستگی کے متعلق آپ کچھ بھی کر لیجئے مگر بے سود۔ آخر مرض بھی تو جوں کا توں رہتا ہے جب تک کہ ڈسی ہوئی جگہ پر فقط پھاہا پڑا رہے گا۔ علاج کا طریقہ ہی یہی ہے کہ اندر سرایت ہوچکے زہر کا تریاق کیا جائے۔ نشہ آور ادویات سے، بہرحال، وقتی سکون تو حاصل ہوجائے گا مگر  کیا خبر کہ تب تک زہر اپنا کام دکھاچکا ہو۔ لہذا اس سمِ قاتل کو ہمیں پھیلنے سے قبل ہی روکنا ہے، تب بات بنے گی۔

اِس سلسلے میں ہمیں پہلی کڑی اپنی ذات سے ملانی ہوگی۔  اپنا محاسبہ کرنا یوگا کہ کیا ہم عقل کے بجائے نقل سے تو کام نہیں لے رہے۔ کیا ہم فسادِ نظم کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں۔  اب جب کہ اپنا محاسبتہ النفس ہوجائے تو اُس کے بعد ہمیں یوں کرنا ہوگا کہ جہاں جہاں تک رسائی میسر آئے وہیں وہیں نقل کے نقل و حمل کی تردید کرنی ہوگی۔ایسا کریں گے تب اس جڑ کو اکھاڑا جاسکتا ہے۔ ورنہ تو ہم صرف وقت کے ساتھ ٹھٹول ہی کررہے ہیں اور اس میں کیا بعید کہ ہمارے ذہن کاچر ہوچکے ہیں جو کسی قسم کی حکیمانہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے کنی کتراتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :