مدارس اور روبوٹکس

بدھ 5 اگست 2020

Mohammad Ukasha Niazi

محمد عکاشہ نیازی

*اسلام اور سائنس* ایک ایسا مضمون ہے جو جدت کا لبادہ اوڑھے ہوئے بھی فرسودہ معلوم ہوتا ہے۔ اس *یگانگت* پر اس طور بلا تحقیق تبصرے ہوچکے ہیں کہ موضوعِ اصلی کی افادیت ایک کونے کھدرے میں دفن ہوچکی ہے اور لوگوں کو کچھ یوں لگنے لگا جیسے *اسلام اور سائنس* ساتھ ساتھ چلتے ہیں یا یوں کہ بالکل جدا جدا ہیں۔ جانبدارانہ تحقیق نے عوام الناس کے ذہن ماؤف کرکے رکھ دئیے ہیں۔

وہ بیچارے ایک ڈورے میں لپٹے انہی نام نہاد محققین کی اقتداء کررہے ہیں ۔۔۔ ؂ *جیسے سائیں، ویسی گائیں۔۔۔*
چنانچہ جس ذہنیت کا مالک صاحبِ قلم ہوتا ہے، اسی نظریے میں صاحبِ مطالعہ ڈھل جاتا ہے۔
اب یہاں اگر تحقیق کو پیشِ نظر رکھا جائے تو دو باتوں پر معمولی سا غور و غوض کرنا پڑے گا۔
پہلی بات یہ کہ جو حضرات *سائنس اور اسلام*  میں گہرا سمبندھ اور گٹھ جوڑ ظاہر کرتے ہیں، ان کے پیشِ نظر سائنس کا علمی جسم ( Knowledge body) ہوتا یعنی وہ بنیادی طور پر اس محرک کے تحت سائنس اور اسلام میں ملاپ کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ جن ابقاء میں سائنسی علم۔

(جاری ہے)

۔۔۔واضح رہے۔۔۔سائنسی علم*۔۔۔۔ گھومتا ہے، اس کا تحفظ تو قرآن سے بھی ثابت ہے (ویسے تو حدیث بھی اس میں شامل ہے لیکن یوں موضوع طول پکڑ جائے گا)۔ اور اس دعوی میں وہ غلط بھی نہیں کیوں کہ قرآن یہی تو کہتا ہے۔۔۔۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
 قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo‘‘
 العلق، 96 : 1
آپ جائزہ لے لیں سائنس وہ شعبہ علم ہے جو تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے انسانیت کو تجربے اور مشاہدہ سے متعارف کرایا۔


قرآن حکیم نے سائنسی شعور عطا کرتے ہوئے کائنات کی تسخیر کرنے کی تعلیم دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ.
’’اور اُس نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے*۔‘‘
الجاثيه، 45 : 13
 ان مثالوں کا لب لباب یہ نکلا کہ اسلام ہمیں  تعلیم دیتا ہے  اس بات کی کہ ہم فطرت کے اسرار کو سمجھیں اور اس کی تسخیر کریں۔

ایسے ہی بقیہ مذاہب کی طرح سائنس اور اسلام کے مابین کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے بلکہ اسلام ہی کا عطا کردہ ایک رویہ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں ہی کی مرہون منت ہے۔
یہاں تو یہ محرکات بالکل درست رہے اور ان محققین کی راست گوئی میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔
اب ذرا جائزہ لیں ان سطور کا جو یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ جی *اسلام اور سائنس۔

۔۔تو بالکل متضاد اور الٹ عناصر ہوگئے* ۔۔ ان کے اندر ملاپ پیدا کرنا تو ویسے ہی  جیسے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
ان حضرات کے دلائل گو  خالصتاً خاص فہم ہیں مگر پھر بھی  اس لحاظ سےقابلِ  غور ہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔۔۔ یہاں جو کلیہ اٹھایا جاتا ہے اس کے تانے بانے جذباتیت سے اٹھ کر جذبات کے اردگرد آ بنتے ہیں۔

مفروضہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور معاشرت کے طور اطوار کو ثبات بخشتا ہے جبکہ اس کے برعکس سائنس ایک مستقل فن ہے جس کے مفروضات میں تغیر ہر گزرتے طور میں وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں۔ خلاصہ یہ نکلا کہ سائنس نام ہے تبدیلی کا(جسے ہم بدعت کہیں گے) جبکہ اس کے برعکس مذہب کا فلسفہ ایک مخصوص تعلیمات پر محیط ہے مثلاً  اسلام کا عقیدہ ہے کہ موت  اٹل ہے جبکہ سائنس بلا دھڑک موت کو زیر کرنے کی جہدِ مسلسل کررہی ہے۔

اب یہاں تو سائنس کی راہ میں مذہب رکاوٹ بن رہا ہے یا یوں کہئے کہ سائنس آڑے آرہی ہے مذہبی تعلیمات پہ ۔۔۔۔۔
آپ نے دونوں نظریات کے حامی جملہ احباب کے محرکات ملاحظہ فرمائے، اب میں ایک بات کی تھوڑی سی وضاحت کردوں اور وہ یہ کہ جہاں تک سائنسی علوم کے حصول کا تعلق ہے ، اس حد تک تو اسلام کے تحفظات اس نظریے سے میل کھاتے ہیں لیکن اگر بات کریں ان نتائج کی جو سائنس  کے پیشِ نظر ہیں تو اس میں اسلام نفی کرتا ہے۔


مثال کے طور پر سائنس تجربے اور مشاہدے کو بنیاد بنا کر فیصلہ دیتی ہے، یہی طریقہ ہمیں قرآن سے بھی میسر آتا ہے۔ لیکن اگر  بات کریں کہ *کیا اسلام اور سائنس ایک ہی حقیقت کی تلاش میں ہیں؟*
یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جو عوام و خواص دونوں کو لاحق ہے کہ سائنس اور مذہب ایک ہی حقیقت کی تلاش میں ہیں اس ضمن میں بہت سے ماہرین طرح دے گئے اور سوال کو تشنہ چھوڑ دیا حالانکہ *اس ضمن میں اسلام اور سائنس دونوں کے راستے جدا جدا ہیں*۔

اصل بات یہ ہے کہ سائنس کاتصور حقیقت بس مخلوقات تک ہی محدود ہے اور اس سے نکلنے والا تصور علم انسان کو مخلوق میں اور دنیا اس طرح الجھا دیتا ہے کہ اسے اپنے خالق سے لو لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی ۔ پس یہ بنیادی بات بہت اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرور ت ہے کہ سائنس اور اسلام ہر گز ایک حقیقت کی تلاش میں نہیں ہیں اور یہی غلط فہمی سب غلط فہمیوں کی جڑ ہے۔


اس ضمن میں ڈاکٹر زاہد مغل لکھتے ہیں :
"سائنس کا تصور حقیقت قبول کرلینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ علم کا اصل منبع وحی نہیں بلکہ عقل انسانی ہے، نیز یہ کہ وحی تب ہی معتبر ہوگی کہ جب وہ سائنس کے اصولوں کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں وحی عقل پر نہیں، بلکہ عقل وحی پر حاکم ہے۔یہ دعوی کہ سائنس کے ذریعے حق تک پہنچنا ممکن ہے اس بات کا اقرار ہے کہ عقل کے ذریعے خیر اور شر، حق اور باطل کا ادراک کرلینا ممکن ہےاور اگر عقل کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی، نبوت اور شریعت بے کار باتیں ہیں جنکی کوئی ضرورت ہی نہیں۔

یہی وہ رجحانات ہیں جو قرون اسلام میں معتزلہ فرقے کے ہاں پائے جاتے تھے جب انھوں نے عقل کو وحی سے بالاتر گردانا (...)۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان معاشروں میں بھی جدید سائنسی علوم کی اعلی سطح پر بالادستی کی وجہ سے اخروی نجات کے بجائے دنیاوی عیش و آرام، اصلاح و تسخیر قلب نیز علم باطن کے حصول کے بجائے سائنسی ایجادات اور تسخیر کائنات کرنے کی فکر اور رجحانات عام ہوتے جارہے ہیں جو ایک نہایت خطرناک امرہے۔

"
گویا یہ بات ثابت ہوئی کہ *اسلام  سائنسی علوم* پر تو یقین رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے مثبت نتائج پر بھی زور دیتا ہے۔
یہ ساری بات اس لیے چھیڑ دی کیوں کہ گزشتہ دن ایک خبر نظروں سے گزری ۔ خبر یہ تھی کہ *مدارس* کے طلباء نے عالمی ٹیکنالوجی مقابلے میں نمایاں نمبر حاصل کرکے کوالیفائی کرلیا۔ یہ خبر جہاں سراہی گئی وہیں اس پر تنقید کے نشتر بھی چلائے گئے اور تختہ مشق بنایا گیا *اسلام اور سائنس* کے نظریے ۔

۔۔۔۔
تنقیدِ بے جا پڑھ کر ضروری جانا کہ ازبسکہ وضاحت کردی جائے کہ اسلام سائنس کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نیز یہ دقیانوسی تصور دور ہو جس کے مطابق مدارس میں روبوٹکس کا مظاہرے کا مقصد محض  *چندہ برائے مدرسہ* ہے۔۔۔ ایسی قطعاً کوئی بات نہیں، یہ مدارس تو داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ ان کاموں کا بیڑا بھی اپنے سر اٹھا رہے ہیں، جس کا حقیقی مجاز ہمارا *شعبہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔۔۔ مدارسِ دینیہ کے پیشِ نظر *اصلاحی ندرت* ہے اور کچھ نہیں۔ افسوس ایک *صاحبِ قلم* نے مدارس کے نظامِ تعلیم کو سدھانے کے طریقوں سے تشبیہ دی ہے، گویا اساتذہ فیل بان ہوئے اور طلباء ہاتھی کہلائے۔۔۔۔ ۔۔۔۔خیر۔۔۔۔اردو کا ایک محاورہ ہے *ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں*
آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :