ہمارا نظام تعلیم

ہفتہ 13 جون 2020

Mudassar Aslam

مدثر اسلم

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارو مدار اس کے نوجوانوں پر ہوتا ہے ۔اسی بات کے پیش نظر زندہ معاشرے اپنے نوجوانوں سے کبھی غافل نہیں ہوتے ۔ان کی صورت حال ،ان کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا وقتاََفوقتاََباقاعدگی سے جائزہ لیتے رہتے ہیں وہ کبھی بھی ان معاملات میں غفلت کے مرتکب نہیں ٹھہرتے ۔اب اگر یہ بات واضح ہے کہ قومی تعمیر و ترقی میں طلبا ء کا کردار اہمیت کا حامل ہے تو ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ ان کو کن مسائل کا سامنا ہے۔

ہمارے یہاں تعلیم کا مسئلہ صرف ا ن بچوں تک محدود نہیں جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ یہاں تعلیم کا مسئلہ دونوں سطحو ں پر توجہ طلب ہے ۔ایک سطح وہ ہے یعنی ان بچوں کا مسئلہ جو تعلیم کے حصول سے محروم ہیں اور دوسری سطح پر ان بچوں کا مسئلہ جو تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں مگر ان کا نظام تعلیم کا معیار پست اور خستہ حال ہے ۔

(جاری ہے)

اس بات کے دو پہلو ہیں۔

پہلا پہلو یہ ہے کہ وہ جو نصاب پڑھ رہے ہیں وہ ابھی تک بیسویں صدی کے واقعات سے آگے ہی نہیں بڑھا۔سائنسی تعلیم گو طلباء کودی جاررہی ہے ۔لیکن جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔لیبارٹریوں اور لائبر یر یوں کی کمی ہے اور تحقیقی اداروں کی کمی ہے ۔ اس کی وجہ سے طلباء جو کچھ Theoryمیں پڑھتے ہیں اسے Practicallyسمجھ نہیں پاتے ۔نتیجے کے طور پر وہ مطلوبہ اہلیت کے حامل نہیں ہو پاتے ۔

اس طرح ان کا علم صرف کتابوں تک ہی محدور رہ جاتا ہے ۔دوسرا اہم اور توجہ طلب پہلو ناقص امتحانی نظام ہے ۔امتحانی نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ طلباء کو اپنے سال دو سال کا علم محض تین گھنٹوں میں پرچے پر منتقل کرنا ہوتا ہے۔دراصل یہ اس چیز کا امتحان نہیں کہ کسی طالب علم کا مطالعہ کتنا ہے یا اس نے کس قدر محنت کی ہے بلکہ اس کا امتحان ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے لکھ سکتاہے ۔

یعنی جو طالب علم کسی وجہ سے مقررہ وقت میں پرچہ حل نہیں کر پاتا اور نتیجے کے طور پر وہ اعلی نمبروں سے کا میابی حاصل نہیں کر پاتا ،اسے نالائق سمجھا جاتاہے۔یعنی صرف ایک پرچہ ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کتنا قابل ہے اور اس کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اس نظام کو بہتر بنانے کیلئے سمیسٹر سسٹم بھی نمایا ں کردرار ادا کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ سال میں کم از کم تین بار امتحان لیا جائے اور پھر ان تمام امتحانات کی مجموعی کار کردگی کی بنا پر اسے ڈگری دی جائے ۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گاکہ جو آرام پسند طلباء صرف آخری ماہ کتابوں کی شکل مبارک دیکھتے ہیں ،سارا سال کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوں گے ۔علاوہ ازیں پرچوں کو جانچنے کا بھی کوئی صیحح اور مناسب نظام اپناناچاہئے تاکہ طلباء کی ساری محنت ممتحن کے " ُموڈ "کی نذر نہ ہو اور ان کی محنت کے مطابق ان کو صلہ ملے ۔معذرت چاہتا ہوں بات لمبی ہو رہی ہے لیکن زیر بحث عنوان اتنا وسیع ہے کہ اس کے ہر پہلو پر روشنی ڈالنا ضروری ہے ۔

اس وقت ہمارے ملک میں ایک نہیں بلکہ تین طرح کے نظام تعلیم پائے جاتے ہیں ۔جو دراصل یہاں پائے جانے والے طبقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان میں پہلا نظام ہے سرکاری تعلیمی ادرے ،دوسرے وہ تعلیمی ادارے جو پرائیوٹ ہیں اور جن میں ہمارے معاشرے کے اوسط درجے والے افراد کے بچے پڑھتے ہیں ۔تیسرا وہ جہاں اعلی طبقے کی اولاد کی تعلیم ہوتی ہے ۔اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ کھڑا ہوا تو بے شک نظر آرہا ہے لیکن اندر سے وہ پوری طرح کھوکھلا ہو چکا ہے اور کسی بھی طرح قابل اعتبار نہیں ۔

اسی طرح تعلیم حاصل کرنے ولاے طلباء کی تعلیم کے حوالے سے کچھ سوالات ہم سے سوچنے ،سمجھنے اور اقدامات کرنے کا تقاضا کرتے ہیں ۔مثلاََ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا وہ اپنے معاشر ے میں ذمہ دارانہ کردرار ادار کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟کیا یہ تعلیم ان کی زندگی کو بہتر سطح پر لانے کیلئے معاون ثابت ہو گی ؟یہ اور اس جیسے کئی دوسرے سوالات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان کا عملی طور پر نہایت سنجید گی اور ذمہ داری سے جائزہ لیا جائے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے اور ہماری نسلِ نوکو پیش آنے والے مسائل کا حل نکالا جائے ۔اگر نظام تعلیم میں موجود خرابیوں کو دور کر دیا جائے تو ہمار ا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔اگرچہ یہ اتنا آسان نہیں ہے ۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
مگر پھر بھی کوشش کی جائے تو یہ ناممکن نہیں۔۔۔
ہمت کرے ا نساں تو کیا ہو نہیں سکتا
خدا ہمار ا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :