عزتوں کے جنازے

پیر 6 جنوری 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

ملک و اقوام کا دارومدار انسانی بقا پہ منحصر ہے۔قوموں کی ترقی مٹیریلسٹک اپروچ کے زیراثر نہیں ہوتیں۔تجارت و صنعت کے بل بوتوں پہ ڈھانچوں کی قدر ومنزلت گر جاتی ہےجب افراد کی قوت خرید سے بالا ہو جائیں چیزیں۔ذخائر کو گھن لگ جاتا ہے جب چوہے ان کی نگرانیاں کرنا شروع ہو جائیں۔آپس کے ریلیشن محض اتفاق لگتے ہیں انکشافات بن بیٹھتے ہیں جب انفرادیت کی سوچوں میں لگان جیسی برص لگتی ہے۔

رشتوں کا احترام اور مقدم پن حاسدانہ چالوں سے کیا جاتا ہے۔لگ بھگ کھانے کے دسترخوان سے گٹر نالوں کے پانی تک کی محدود سوچ مٹیریلسٹک اپروچ کہلائے گی یا جدت پسندی کا عمل دوہرائے گی۔یہ باتیں تو بالاتر ہیں ایک عام سوچ سے لیکن گھر کی چاردیواری کا تقدس و عظمت کے بانی بھی خود کو شہید کہلاتے ہیں!آخر کیسے؟ قوم و وطن کے پاسداروں کے سپاسلار ہر گلی نکڑ اور چوارہے سے کرائے پہ فراونی سے دستیاب ہیں لیکن ان کے نعرے اور گونج کھوکھلی ہو جاتی ہے جب ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پلے کارڈز پہ خود کے ضمیر کی نہیں معشیت کی فروانی کے لئے ایک عورت کو بلکہ ماں،بیٹی،بہو کی عزت کی تکریم نہیں بلکہ چادر دری ۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔الفاظ کو ہتھکنڈا بنایا جاتا ہے۔خود کی غیرت کو بے غیرتی کی اس تصویر اور موسیقی پہ رقص کر کے پالا جاتا ہے۔
جو شام کو ماں،بیٹی اور بیوی کے روپ میں سامنے ہوتی ہے۔غیرت و عزت کے جنازوں کی تدفین کے بعد رخ جب گھر جیسی جنت کی طرف ہوتا ہے تو سبھی پیار و شفقتیں جاگ جاتیں ہیں کہ وہاں ایک عزت بھی ہے۔عورت کی تقدیس کملی والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے کملی بچھاکر کی تھی چادر کو اتار کر نہیں! آج ایوانوں میں مریم،زینب کے کیس ایسے ڈسکس کئے جاتے ہیں جیسے ان کی عزت پہ آپ مر مٹے تھے؟آنکھوں میں حیا ہوتی تو بیچ چوراہے لٹکا کر ایوان میں جاکر بولتے سپیکر صاحب میں اپنی بیٹی کا بدلہ لےآیا ہوں لہذا سزا دے مجھے! یہ نہیں بولا جاتا کہ ان کی حکومت میں ہوا تھا کیا کیا انہوں نے؟ کیس کے حتمی نتائج سنائے گئے ملزم دھنداناتے پھر رہے ہیں۔

مظلوم ظالم کی ہیبت سے ڈر کر آواز اٹھانے سے مجبور ہے کہ کیس کیا انصاف کے تقاضوں کے لئے کیا تھا؟ماجرا کچھ الٹا ہے مظلوم آہ و بکا کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے پہ مجبور بیٹھے ہیں۔ ان کی اموات کو آیات سے نہیں سیاست سے ایصال ثواب بھیج رہیں ہیں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ایوان میں ویکس کروانے جیسے جملے اور مریم نواز،مریم اورنگزیب،زرتاج گل،فردوس صاحبہ کو نمائندگیاں اس لئے دی گئیں کہ عورتوں کے حقوق کی بجائے مردوں کے کندھوں پہ عورتوں کی عزتوں کے جنازے دیکھ سکیں۔

فیاض الحسن چوہان صاحب حریم شاہ (فضہ حسین) اور خٹک صاحبہ آج ایک بیٹی ہی رہتیں اگر آپ کے اندر کا انسان ایک ماں بیٹی کی عزت کا پوجاری ہوتا،ان کو زندگی موت کی کشمکش میں نہ اتارتا۔کون سی جمہوریت کے جھنڈے اور پیکر ہیں جس میں عورت کو گھر سے بازار تک لانے میں بیٹیوں، عزتوں کے جنازے اور معاشرے میں عورت کو یکسانیت کی ترغیب دیتے ہیں؟ اسلام کے بنائے ہوئے اصولوں سے عاری ہو کر مرد کے شانہ بشانہ اس لئے کھڑے کرنا چاہتے ہیں کہ ان جیسی خواتین پیدا کر سکیں؟ شرم کے اس مقام پہ کون سی جمہوریت اور قوم کا نظریہ بقا کی جنگ لڑ رہا ہے؟مسلمانیت کی بقاوسلامتی ضروری ہے یا جدت پسندی (ترقی یافتہ) کی صف میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔

عالم اسلام میں مذہب پرستی کا دور دورہ ہے جس میں معاشروں کو ان کے مذاہب سے پرکھا جاتا ہے۔مسلمان قوم کی بنیاد ایک گھرانے سے نہیں ایک فرد(عورت)سے شروع ہو کر مرد کی نسل پہ جا ختم ہوتی ہے۔نسلیں بڑھتیں اس لئے ہیں کہ اس کی غیرت کو للکارہ نہ جائے۔حفظ و امان کی قسمیں، رشتوں کے بندھن،قول و فعل اور معاشرے میں نام و مرتبے کا طوق عورت کے لئے سجایا جاتا ہے۔

تربیت و اعمال میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے لئے دین جیسی نعمت اور رحمت سے مستفید ہونا چاہیے۔ غیر مذاہب کو رہبر و رہنما مانے گے تو ماں بیٹی اور بہو کے رشتے ایسے ختم ہو جائیں گے جیسے جانوروں میں ہوتے ہیں۔عارفی کی گزارش ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجالس میں اسلام ۔۔۔۔۔ مشوروں میں قرآن۔۔۔۔۔ کاموں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے احوال ہوں گے تو ریاست ہر ماں بیٹی سب کی ہی ماں بیٹی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :