جینیاتی وار

پیر 23 مارچ 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

حالت زار پہ رونے والے انسان ہمیشہ پس پردہ ان حقائق سے آنکھیں چرا کر ماضی کا ایک بھیانک چہرہ پیش کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے حال کی بلندیوں سے نیچے گرنے پہ مجبور کر رہا ہوتا ہے۔ان چہروں کی پہچان وقتی تقاضوں اور صورتحال کی نزاکت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔جو حالات اس وقت عالم اسلام اور دنیا کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔اس میں ہر وہ چہرہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے جو مستقبل کی پیشن گوئیاں اور علم نجوم کے گرو مانے جاتے تھے۔

وباؤں کا سلسہ ابد سے ہی تھا اور رہے گا۔کیونکہ نظام کائنات کا خالق ہی بہتر طریقے جانتا ہے۔وحدانیت کے قائل اس بات سے انکاری نہیں کر سکتے لیکن جب بات مادیت کے ماننے والوں کی ہوتی ہے ان کے تجربات ہی ان کے پےدرپے ہوئے چلےجاتے ہیں۔سوشل میڈیا کا دور دورا جو اب شروع ہوا ہے وہ اس صدی کا شاہکار کہلائے گا۔

(جاری ہے)

ستم ظریفی کی داستانیں رقم کر کے انسانیت پرستی کے کاروبار چلانے والے بھیانک چہرے منہ پہ ماسک پہنے شرمسار نہیں بلکہ زندگیوں کو ایک ڈیجیٹل گیم کے کرداروں کی طرح مسل رہیں ہیں۔

قوموں کی زندگیاں ایک نام سے منسوب کر کے ان کے کرداروں کو زندہ یا مردہ کیا جانے کے اس اوچھے ہتھکنڈے سے ملکوں کی سرحدیں کمزور پڑ گئی ہیں۔ اربوں روپوں کی مالیت کے دیو ہیکل ایٹمی ہتھیار نصب کئے گئے وہ زمین بوس یا فلک شگاف نعروں کی طرح معلق ہی ہیں۔جنگ و جدل کی نت نئی ایجادات صرف کچھ اہداف کے لئے ہی ہوتی ہیں جس میں اپر سوسائٹیوں کے کچھ اشرافیہ ہی شامل ہوتے ہیں۔

سائنس فکشن فلمز دیکھنے کا ایک جنون جو بچپن سے چلا آ رہا تھا بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر رہا ہوتا ہے کہ دنیا 2012 میں غرق ہو جائے گی سیلاب ،عمارتیں زمین بوس ہو جائیں گی۔انسان ہوا میں معلق اور گاڑیاں ہواؤں کی زینت ہو گی۔ہر چیز فاسٹر صرف انسان ہی کمزور ہوتا دیکھا ہے۔لیکن اب حقیقتوں کے بہت قریب لگتا ہے۔ملکی سالمیت کی جنگیں عالمی جنگوں کے لئے انسانی ایجادات شاندار طریقے سے دیکھائی جاتی ہیں۔

وقت نے بہت ہی جلد سمتوں کا تعین کرنا شروع کر دیا ہے۔دنیا کے اشرافیہ بیٹھ کر ان نظاروں پہ بھی شرائط اور انجوائے کے لئے محافل سجائیں گے کیونکہ مادیت کے پردے ان کے تجربات کو پختگی دینے کے لئے انسانی زندگیوں کو ہی موثر ترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔سوشل میڈیا صارفین کی فہرست دن دگنی نہیں بلکہ سو ٹائم زیادہ بڑھی پچھلے 5 سالوں میں ! موبائل اپیلیکشن نیٹ ورکنگ اور جی پی ایس لوکیشن بیسڈ ورکنگ شروع کی گئی۔

اب کرونا وائرس کی ابتدائی شکل میں ہی ساری دنیا میں خوف حراس کی جو لہر پھیلی ہے وہ عیاں ہے۔لیکن تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھیں کہ لاکھوں لوگ سیمپلنگ کروانے قطاروں میں کھڑے دیکھائی دے رہیں ہیں۔جینیاتی انفارمیشن وار کا آغاز ہو چکا ہے جو کے آئندہ برسوں میں تو نہیں خیر صدی کے گزر جانے تک ممکن ہو پائے۔اس وقت چائنہ نے معاشی بدحالی جھیلنے کے ساتھ جینیاتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ اور تجربات کی طرف بھی رخ موڑ لیا ہے۔

1.4 ارب کی آبادی کے وسائل کے ساتھ حفاظتی اقدامات کی طرف یہ ان کا سب سے بڑا قدم ہے۔قوموں کے کردار ان کی بقا کے ساتھ ہی منسلک ہوتے ہیں۔تصویر کے اس دوسرے رخ میں امریکہ شاید کچھ تیز چل پڑا جو کہ وقتی تقاضوں کے عین مطابق نہیں تھا۔امریکہ،جرمن،آسڑیلیا،انگلینڈ،فرانس جیسے ملک افغانستان سے لوٹی ہوئی پوست کا استعمال کر کے انسانیت اور اپنے ہتھیاروں کے تخمینے پورے کرنے کے چکر میں ہیں۔

وائرس اور ویکسین کی فروخت کے اس عظیم الشان منصوبے میں انسانیت کے قاتل ہی انسانیت کے محافظوں کے سربراہی کا سہرا سجانے کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔صف بندی کی دوڑ میں مقابلہ نہیں بلکہ زندگیوں کو داؤ پہ کون زیادہ لگاتا ہے۔پبلک ریلیشن آفیسر کی طرح پاؤں تلے بچھ جانے کی صلاحیتوں کے مالک یہود و نصارٰی دنیا کو اب مزید تقسیم اور ٹکڑوں میں بانٹے کی کوشش میں ہیں۔

اس سے پہلے جینیاتی ڈیٹا اور علاقائی خدوخال کے آگاہی ان کا اولین مقصد ہے۔ایک لائن جو چائنہ سے عراق تک لگائی گئی اس کے اس پار انڈیا جیسے جاہل حکمرانوں کی بستی کو چنا۔جو پچھلی کئی صدیوں سے پتھروں میں خدا ڈھونڈتے رہے لیکن جانوروں کے بچاری حیوانوں کو ہی اپنا خدا مان بیٹھے۔لالچ و ہوس کے بھکاری انسانیت کی قربانی دینے سے ڈرتے نہیں بلکہ ڈر کو انسانیت میں منتقل کر دیتے ہیں۔

اس جنگ میں ہمارامقابلہ وائرس سے ہی نہیں بلکہ اس برائی سے ہے جو انسانیت کے قاتل اور حیوانیت کے پیروکار ہیں۔معاشروں میں نفرت انگیزی، اسلام میں مسلکی اختلاف،امتیازات خاص طور پر اس عرض پاک کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں ہیں۔مسلمان اور وطن پرستی کے لئے آواز بلند کرنا اور قوم بن کے لڑنے کا وقت آن پہنچا ہے۔کفار کی لشکر کشی اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ اب ہتھیاروں سے نہیں لڑی جائے گی۔

حکومت وقت سے التجا ہے کہ اپنے نوجوانوں کی جوانیاں اب کھوج کرنے پہ لگائیں،ریسرچ سینٹرز، لیبارٹریاں، لائبریریاں بنوائی جائیں مسقبل میں اسلام کا مسلمان کا دفاع کرنے والوں کے لئے بنیادی اقدامات کرتے جائیں۔سیاست تب ہو گی جب ریاست ہو گی۔آنے والے وقت کی باریک بینوں کو سمجھنے کے لئے سمجھانے والوں کی کھیپ تیار کرنے پہ فوکس کرتے ہیں۔

یہ وائرس ابھی کچھ نہیں جینیاتی جنگ میں مسلمانوں کے دفاع کی ضرورت ہے۔لمحہ بہ لمحہ کمزور پڑنے والا شخص بھی اموات کا سبب بنتا جائے گا۔قوم و ملت کی بربادی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر کلیجے پھٹ جائیں گے۔خدارا اس وار کے بچاؤ کے لئے حکمت عملی اپنائی جائے۔اپنے سورس استعمال کئے جائیں۔دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔قرآن و سنت سے باہر کوئی ریسرچ سینٹر نہیں انسانیت کی دین کی فلاح اس رسی کو تھامنے میں ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :