مہنگائی

جمعرات 20 فروری 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

روزانہ کی بنیاد پہ باتوں،کا منبع انسانی تشخص کو مجروح کرنے کے ساتھ معیار زندگی کا تعین بھی کرتی ہیں۔بنیادوں کی پختگی افراد کی معاشی سرگرمیوں کے گرد گھومتی نظر آتیں ہیں۔انفرادی قوتوں کے متعین اور معاشرتی فیصلوں پہ اثر انداز ہونے کے لئے بہت سے اہم نکات ہیں۔لیکن منزلوں میں دشواری کے اسباب تب پیدا ہوتے ہیں جب ان کے لئے راستوں کی مشکلات سے عاری ہو کر چل پڑتے ہیں۔

بھاگ دوڑ کی ایسی منزلیں ہمیشہ کانٹوں سے بھری ہوتی ہیں۔حصول منزل کے جتن ہی راستوں کو آسان یا مشکل بناتے ہیں۔کسی بھی کمیونٹی یا علاقائی سر بلندی تب ہی ممکن ہے جب اس کے معاشی اقدام سے معاشرتی اقدار کا بول بالا ہوتا ہے۔معاشروں کی ترقی ان کی ضروریات زندگی سے وابستہ ہوتیں ہیں۔اس کے لئے ہر معاشرے میں کچھ اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں جو اتنے نپے تلے ہوتے ہیں کہ ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ملکوں کی سرحدوں سے لے کر گلی کوچے کی نکڑ تک ہر فرد معاشیات کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔اس زنجیر کی گرہ اتنی گہری ہیں کہ عالم ارواح سے بستر المرگ تک ہر لمحہ اس سے جڑا ہوا ہے۔دنیا کی ہر ضرورت روپے پیسے سے اور روپے کی قدر علاقوں سے دانستہ طور سے وابستہ ہے۔مثلا یورپ میں ایک یورو،ڈالر کی قدر ایشیا میں کئی روپوں میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن اس ٹرانسفر سے ملکی کرنسی کی قدر بڑھ بھی جاتی ہے اور کم بھی۔


بات اگر اصولوں کی کی جائے تو یورپ نے مذہبی اصولوں کو اپنایا چاہے وہ اسلام کے ہی ہوں ان کے ہاں اصولوں کی قدر ہے جو معاشروں کو اعلی بتاتے ہیں۔یورپ حضرتِ عمر رضہ اللہ عنہ کے قوانین کا مرہون منت ہے۔اگر ریاست مدینہ کی بات کی جائے تو اس کا طرزحسن ہی سیکھ لیا جائے تو معاشرتی پیچ و خم سیدھے ہو سکتے ہیں باتوں سے تو شیخ چلی صاحب بھی بہت سیانے مانے جاتے تھے لیکن اعمال کرنے سے جانے جاتے ہیں۔

نقابی زندگی ہمیشہ خولوں کی محتاج ہوتی ہے۔سیاست دان اسی کی ایجادات میں سے ایک ہیں۔پریکٹس انسان کو ہی نہیں جانوروں کو بھی شائستگی سیکھا دیتی ہے۔ممتا ہی شفیق نہیں ہوتیں بلکہ اصول بھی شفقت سیکھتے ہیں۔مہنگائی کا اصول بھی ان میں سے ایک ہے جو انسانوں کو انسانوں سے معیوب کر دیتا ہے۔
ایک انسان کے بنائے ہوئے اصول ایک علاقے کی تقدیر بن جاتے ہیں۔

چار صوبوں کی تقدیر ایک انسان کے ہاتھوں ایسے ہی لکھی جاتی ہے جیسے نکاح دو الگ شخصیات کا ہوتا ہے لیکن مولوی صاحب کاتب کا درجہ رکھتے ہیں۔مہنگائی کا لفظ ہی نہیں بلکہ زندگیوں کا طرزحسن بدلنے والی چیز سمجھی جاتی ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان کوعالمی سطح پہ 12 ویں نمبر کے تغمہ سے نوازا گیا ہے۔پاکستان بیورو آف سٹیٹک کے نے انسانوں اور اصول و ضوابط کے لحاظ سے موجودہ اور پچھلے قلم دانوں کا فرق کچھ یوں بیان کیا ہے۔

یہ فرق سالانہ،ماہانہ رپورٹ کی صورت میں شائع کیا جاتا ہے۔لمبی لمبی تقاریر اور پارلیمنٹیرینز کے بحثوں کا خلاصہ کچھ عالمی ادارے بھی اپنی رپورٹوں میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ امتیازات سامنے آتے ہیں۔macrotrends کے مطابق سال 2018 کی اوسط مہنگائی 5.8٪ رہی جو کہ رواں برس سے کافی کم رہی۔اگر بجٹ 2016-17 کی اوسط مہنگائی 4.1٪ رہی۔2017-18 کی اوسط مہنگائی کی شرح 2.9٪ رہی۔

رواں برس کی شرح پچھلے تمام سالوں کی نسبت بہت زیادہ رہی۔
2018-19 کی شرح 7.0٪ رہی۔سال 2019 کے مارچ کے مہینے میں مہنگائی 9.4٪ ریکارڈ سطح پہ رہی۔پاکستان بیورو آف سٹیٹک کے مطابق مہنگائی کی پیمائش اشیا کو گروپس میں تقسیم کرنے سے کی جاتی ہے۔جس میں CPI (consumer price index) اس گروپ میں NFNE نان فوڈ اور نان انرجی والی اشیا شامل ہیں۔تیل،پٹرول،ڈیزل،سی۔

این۔جی، بجلی اور قدرتی گیس شامل ہیں۔ جولائی 2017-18 میں ان کی شرح 5.6٪ اور 2018-19 میں 7.6٪ ریکارڈ کی گئی۔لیکن سال 2017-18 میں اوسط شرح 5.6٪ اور 2018-19 کی اوسط شرح 8.1٪ اضافی ریکارڈ کیا گیا۔اس کے بعد انفرادی طور پر لوگوں کو آمدنی کے لحاظ سے پانچ گروپس میں تقسیم کر کے مہنگائی کے اثرات کو دیکھا گیا۔
پہلا گروپ 8000 کی آمدن والے جو 2017-18 میں 2.7٪ اور سال 2018-19 میں 4.9٪ کی شرح سے مہنگائی کی زد میں رہا۔

دوسرا گروپ 8000-12000 والا ہے جو سال 2017-18 میں 3.0٪ اور سال 2018-19 میں 5.3٪ سے لیپٹ میں رہا۔تیسرا گروپ 12000-18000 والا رہا جس نے سال 2017-18 میں 3.1٪ اور سال 2018-19 میں 5.5٪مہنگائی کا سامنا کیا۔چوتھا گروپ تنخواہ دار طبقہ گنا جاتا ہے اس نے سال 2017-18 میں 3.3٪ اور سال 2018-19 میں 6.6٪ کے لحاظ سے مہنگائی کی اوسط شرح کا سامنا کیا۔آخر پہ 35000 سے زیادہ والی ا۔دن کے لوگ شامل تھے جنہوں نے سال 2017-18میں 4.4٪ اور سال 2018-19 میں 8.4٪ سے نہ مہنگائی کی شرح کو برداشت کیا۔

اگر سالانہ اوسط نکالی جائے تو سال 2017-18 میں 3.8٪ اور 2018-19 میں 7.0 ٪ مہنگائی رہی۔
اس کے بعد اگر WPI (Wholesale price Index) ہول سیل اشیا کی بات کی جائے تو اس میں زرعی جنگلات اور مچھلی کی انڈسٹری7.4٪ اوورز اینڈ منرلز میں 14.31٪، کپڑوں کی صنعت 13.79٪، چمڑا 33.07 ٪، دھاتی مشینری 6.70٪ اور ٹرانسپورٹ ایبل چیزوں میں 21.15٪ اضافہ کیا گیا۔
اس ریکارڈ مہنگائی کے پیچھے پی ٹی آئی، پچھلی حکومت کے لئے گئے آئی ایم ایف سے قرض تھے یا موجودہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں۔

پچھلے اکسٹھ سالوں میں 6000 ارب کے مقروض پاکستانی سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار کے مقروض ٹھہرے لیکن ان دو بجٹوں میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک کے پیدائشی مقروض پیدا ہونگے۔11 ہزار ارب کے قرضے موجودہ حکومت نے مختلف ڈیل کی شکلوں میں اٹھائے۔پی پی پی کے دور2013 میں ہر دن کا قرضہ 5 ارب کا لیا جاتارہا،2018 مسلم لیگ (ن) نے ہر دن 8 ارب کا گزرا تو پی ٹی آئی کا ہر دن 25 بلین کا گزار رہیں ہیں پاکستان کی غیور عوام۔

موازنہ تب کیا جاتا ہے جب ریس میں بھاگنے والا ہر شخص خود کو فاتحے مانتا ہے۔گھر کے افراد سے لے کر حکومتی ایوانوں تک کی سوچ خود کو گھر سے شروع ہوتی ہے اور گھر کے مال و دولت پہ ہی اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔کیونکہ جس قوم میں اپنے فوت شدگان کی بخشش علاقے کے ایم پی اے کی دعا سے ہو جائے اور شادی کی خوشی باپ کو سٹیج سے نیچے اتار کر ایم این اے کو بیٹھانے سے بڑھتی ہو اس کی کھال اتارنے کے لئے ایسے ہی قصاب اتارے جاتے ہیں۔

غریب کو ریلیوں اور جلسوں سے جب اپنے گھر کے چولہے جلانے کا ہنر سیکھا دیا جائے،ڈگریاں اور نتائج ان میں شرکت سے مشروط ہو جائیں تو سب سے بڑے ہسپتال،سکول،کالج،یونیورسٹیاں،فیکٹریاں،کارخانے،کمپنیاں انہی کے ہاتھوں میں ہونگے۔کرپشن اور جھوٹ کے ہنرہم گھر کی چار دیواری میں سیکھاتے ہیں وہ ایوانوں میں گونجتے ہیں تو غلط درست کے امتیازات درکنار خود کے درست فیصلوں پہ بھی شکوک و شبہات کی تلوار لٹکا لیتے ہیں۔اندر کے عارفی۔۔۔۔۔کی پہچان کریں۔۔۔معاشی اور معاشرتی اقدار آپ کے قدموں کی دھول ہونگی۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :