کرونا اور پاکستان کے اقدامات

جمعہ 10 اپریل 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

کرونا کے مختلف نام اور پہچان کے لئے علامات نے دنیا کو خوف ہراس کے ایک گہرے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔کوئی تو اس کا ترجمہ انگریزی میں کر رہا کوئی عبرانی میں۔حوالہ جات اور سنسنی خیز انکشافات نے عالم دنیا کو ایک اندھیر کوٹھری کی مانند بنا دیا ہے جہاں ہر چیز خوفناک اور ڈراؤنی ہی لگتی ہے۔کرونا کراؤن کو کہتے ہیں یا پکارنے،آواز لگانے کو کہتے ہیں۔

تلمود کی بنیادی اکائی پانچواں باب (Masechet Berachot)اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ایک بیماری آنے والی ہے جو انسانوں کو انسانوں سے ہی جدا کر ڈالے گی۔
انگلش لفظ COVID بھی اس بات کی دلیل ہے۔ان تمام باتوں سے استثنائی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو چائنہ جیسی عالمی مارکیٹ اور سپر پاور کی جڑوں تک ہلا دینے والی اس وبا نے اپنا رخ دنیا کے تمام کونوں کی طرف کر لیا۔

(جاری ہے)

جس میں سرحدوں سے عاری اور رنگ و نسل کے منافی جنگ و جدل کی صورت حال پیدا کر دی۔پہلے جنگوں میں قربانیوں کے لئے مشقیں کی جاتیں تھیں لیکن اس جنگ میں قربان ہو کر بتانا پڑتا ہے کہ یہ ٹرینگ ہے۔اب تک دو سو سے زائد ملکوں کی آب و ہوا کے ساتھ انسانوں کی ٹیکنالوجیز کے بھرمار کو مات دیتے ہوئے 1512052 افراد کو اپنا اسیر کر چکی ہے۔
پر اسرار مرض کچھ گھنٹوں پہ محیط یہ انسان کے مرکزی اعضاء کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ہوا میں معلق ہونے کی صلاحیتوں پہ مکمل عبور رکھتی ہے۔

اس گھاتک انداز سے اب تک 88350 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔پندرہ لاکھ سے 329751 افراد اس میدان میں غازی کے رتبے پہ فائز ہوئے۔اس کے ساتھ 48016 لوگوں کی تشویشناک حالت اس بات کی ضامن ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ممکن بھی ہو سکتا ہے۔عالمگیر ہوائی جنگ میں امریکہ سپر پاور ہونے کے ساتھ اس میں سب سے پہلے( 435128) نمبر پہ ہے۔ترتیب وار سپین،اٹلی،جرمن،فرانس اور چائنہ جیسی عظیم طاقتوں کے گرد کرونا وائرس کا جال مظبوط سے طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔

ٹیکنالوجی اور ایٹمی ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور اپنی اکنامی کے سب سے مہنگے ترین بجٹوں کا سہارے لینے کے لئے میدان میں کود پڑے ہیں۔
امریکہ نے اپنی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین بجٹ 22کھرب ڈالر کرونا کو مات دینے کیلئے منظور کیا۔دنیا ایسی مفلوج ہوئی کہ تمام ممالک نے اپنے ہوائی، زمینی اور بحری راستوں کو بند کر دیا۔

اس دوڑ میں پاکستان بھی 26 فروری کو شامل ہوگیا جب ایک شہری ایران کے بارڈر سے ارض پاک میں داخل ہوا۔تفتان کے اس بارڈر پہ دوسری سرحدوں کی نسبت عوامی آمد و رفت زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ زائرین ایران کے راستے کربلا کے مقام تک سفر کرتے ہیں۔چائنہ کے بعد ایران جلد ہی اس موذی مرض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ تفتان سے ہزاروں کی تعداد میں زائرین پاکستان کے داخلی دروازوں پہ ہجوم باندھے کھڑے تھے۔

پہلے کیس نے حکومتی ارکان کے ساتھ صوبائی حکومتوں کے اندر تشویش کی لہر پھیل گئی۔قرنطینہ اور طبعی سہولتوں کے فقدان سے اعلی حکام کی بے چینی میں اضافہ ہوتا دیکھائی دے رہا تھا۔لیکن قدرت کے کرشموں میں سے ایک کرشمہ یہ بھی تھا کہ 23 دنوں میں ایک ہزار سے بھی کم لوگ متاثر ہوئے تھے جبکہ امریکہ اورچائنہ میں تعداد ہزاروں تک آن پہنچی تھی۔ایک ماہ گزرنے کے بعد تعداد تقریبا 1600 کے قریب تک جا پہنچی۔

پاکستان کو علاقائی طور پہ سات حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔جس میں پنجاب میں کنفرم کیسوں کی تعداد 2171,سندھ 1036, خیبرپختونخوا 560، گلگت بلتستان 213، بلوچستان 212، اسلام آباد 102 اور آزاد کشمیر میں 28 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں۔حکومتی ڈیٹا بیس کے لحاظ سے کنفرم کیسز 4322،صحت یاب مریضوں کی تعداد 572 اور تشویشناک افراد کی تعداد 31 ہے۔موت کے ہاتھوں بے بس ہونے والوں کی تعداد 63 ہے۔

پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں 25٪ لوگ غربت کی آغوش میں جی رہے ہیں۔ڈیلی اجرت پہ کام کرنے والوں کی کثیر تعداد گھر تک محدود ہو چکی ہے لاک ڈاؤن سے تجارتی اور عالمی آمد و رفت کے تمام ذرائع بند ہو چکے ہیں۔ حکومت نے اس کی روک تھام کے لئے ملک میں لاک ڈاؤن کو بہتر سمجھا جس کے نتیجے میں وائرس کا پھیلاؤ کافی حد تک دوسرے ممالک کی نسبت کم رہا۔

تفتان کے بارڈر پہ مثبت آنے والے کیس نے خوف کی ایسی لہر پیدا کی کہ زندگی برف میں لگ گئی۔گھروں تک محصور لوگ خوراک کیلئے بھی تنگ نظر آئے۔سڑکیں ویران کاروبار کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا۔کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ تمام کاروبار ٹھپ ہو گئے۔پاکستانی اکنامی کو 30 بلین پاکستانی روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔جس کے ساتھ 180 سے 185 ملین ڈالرز ملکی خسارہ بھی لاک ڈاؤن کے پیش نظر ہے۔

خسارے تو آسمانوں کو چھو ہی رہیں ہیں لیکن 13 ملین لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گے۔3 سے 5 ملین لوگ structural unemployment کا شکار ہونگے۔غربت کی شرح 45- 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ایوانوں سے جوانوں تک کی اس جنگ میں ہر کوئی اگلے محاذ پہ ڈٹا ہوا ہے۔اجتماعیت سے انفرادیت پسندی کے اس رجوع میں مسائل کی بھرمار جنم لے رہی ہے۔جہاں ہر طرف سناٹا ہی سناٹا ہو۔
ہجوم سے لے کر مسجدوں تک پابندی کا اطلاق کر دیا گیا۔

فوج اور پولیس کی گاڑیوں کے سائرن عوام الناس کو گھروں تک ہی محدود رہنے پہ مجبور کر رہیں ہیں۔دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد بازار ویران اور انسان پریشان دیکھائی دے رہیں ہیں۔روزمرہ کی اشیاء خورد کی قلت سے بچنے کے لئے حکومت وقت نے سب سے بڑا ملکی 1200 ارب کا بجٹ منظور کردیا۔جس میں مستحق اور ڈیلی اجرت پہ کام کرنے والے شامل ہیں۔غیر ملکی امداد میں پاکستانی دوست چائنہ نے سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔

چائنہ کی حکومت کی طرف سے 40 لاکھ ڈالر کا اعلان کیا گیا۔ 12000 ٹیسٹ کٹس کے ساتھ 30000 فیس ماسک اور 10000 حفاظتی سوٹ بھی شامل ہیں۔
سوشل ورکر اور علی بابا فاؤنڈیشن نے 50 ہزار ٹیسٹ کٹس اور 50 ہزار ماسک پاکستانی عوام کے لئے بھیجے۔4 ملین ڈالر چائنیز امداد سے ہسپتالوں اور قرنطینہ سینٹرز کا قیام اور میڈیکل لوازمات پورے کرنے پہ خرچ ہونگے۔حالات کے پیش نظر پاکستانی قوم کی جنگ کرونا کے ساتھ ساتھ خالی پیٹ اور سلفیوں کے ماسٹرز حضرات سے بھی ہے جو گلی کوچوں میں ایک ماسک کے عوض بھی اپنی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ کی معلومات میں بھرپور اضافہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں غریب کے ساتھ سفید پوش کے ہاتھ امداد لینے کے لئے روکے ہوئے نظر آتے ہیں۔

1کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کی کفالت 4 ہزار روپے ماہانہ کے عوض کی جائے گی۔آپ کو ایس ایم ایس کنا پڑے گا رجسٹر ہونے کے لئے،گورنمنٹ کی امداد کے لئے بھی آپ کو 3 بار نیٹ ورک استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے عوض آپ کو تقریبا 7 سے8 روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں اس مرحلے کے لئے ابھی تک 4 کروڑ 30 لاکھ 44 ہزار 60 ایس ایم ایس موصول ہو چکے ہیں۔نیٹ ورک استعمال کرنے سے جمع ہونے والی رقم 30 کروڑ 34 لاکھ 8 ہزار 4 سو 20 روپے بنتی ہے۔

اس کو سر انجام دینے کے لئے حکومت کی طرف سے ٹائیگر فورس کی رجسٹریشن بھی جاری ہیجو کرونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے مفت میں سروسز فراہم کریں گے۔مفت سروسز فراہم کرنے کے لئے ابھی تک 7 لاکھ 93 ہزار نوجوان کرونا ٹائیگر فورس کا حصہ بن چکے ہیں جس میں پنجاب 4 لاکھ 94 ہزار سے سرفہرست ہے۔ملک و قوم کی اس مصیبت زدہ حالت میں جان کی پرواہ کیے بغیر بچوں سے بوڑھوں تک ہر کوئی جان کے نذرانے کے لئے کھڑا ہوا ہے۔مسلمان کے ایمان کی تکمیل بھائی کو درد سے تسکین ملنے سے ہی ہوتی ہے۔وقت کے پیچ و خم میں ایمان کی کشتی ہی امت کا سہارا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :