اثاثہ یا سیاپا

بدھ 26 فروری 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

بیس فروری کو لیہ کی سر زمین پہ احساس اثاثہ جات کی منتقلی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم پاکستان تھے۔ کامیابی کا ایک سنگ میل عبور کیا گیا۔معاون خصوصی برائے احساس پروگرام ڈاکڑ ثانیہ نشتر نے اس کے چیدہ نکات پہ روشنی ڈالی جو کہ لفاظی کی ایک اعلی مثال تھی۔الفاظ کے چھیڑ چھاڑاو نے عمران صاحب کے حوصلوں اور غربا کے نعروں نے ہال کا ماحول گرما دیا۔

اس پروگرام کا مقصد غریب اور دور دراز کے لوگوں کے ذریعہ معاش کو بڑھانا ہے۔خود اعتمادی سے جڑی یہی کوششیں کئی بار پہلے بھی کی گئیں لیکن نتائج کیا آئے؟ معاملات میں اور بجٹ کے ضیاع کتنا ہوا؟ کن لوگوں کے اکاؤنٹس ڈیبٹ کریڈٹ ہوئے؟ 
اس پروجیکٹ کا آغاز پاکستان کے 23 اضلاع کی 735 یونین کونسلز میں کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب کے 3 اضلاع اور خاص طور پہ لیہ کے چار سو گھرانے شامل ہیں۔

ڈاکڑ صاحبہ کے نزدیک اس سے دو لاکھ خاندان اور 14 لاکھ افراد اپنی آمدن میں اضافہ کے ساتھ گھر کے چولہے کو ٹھنڈا ہونے سے بچا پائیں گے۔دوسرے اندازے کے مطابق 18 لاکھ خاندان اور 64 لاکھ افراد اپنی ضروریات کو پورا کر سکے گیں۔60 ہزار روپے تک کے اس قرض سے عوام کو اشیاء کی صورت میں اثاثہ جات دئیے جائیں گے۔جن میں دُکان کا سامان،رکشہ،لوڈر رکشہ،جانوروں کی کچھ اقسام شامل ہیں۔

گائے،بکری،بھینس،اور ویلڈنگ کے آلات بھی تقسیم کئے گئے۔حکومت کی طرف سے ایک نہایت موثر اقدام میں سے ایک قدم تصور کیا جا رہا ہے! 
معاشیات کے اصول کو صرف اپنے اصولوں میں ڈھالنے سے ضوابط میں سوکھا پن آتا ہے! تقاریروں سے تخمینے لگائے جانے کا ہنر مودی نے بھی بہت آزمایا لیکن حالات کا رخ ہواؤں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔وزیر اعظم پاکستان کے الفاظ کی طاقت بھی مٹی کو سونا بنانے کے مترادف سمجھی جا رہی ہے۔

لاکھوں کی زندگیوں کو بدلتے بدلتے کروڑوں کی قربانی کے پے درپے ہیں۔قرض سکیموں کو ایمبیسڈر کے طور پہ عوامی سطح پہ متعارف کروانا،طبقاتی اور نظریاتی تفریق،الزامات و القابات سے نوازنا مقصود ہو تو سٹیج اداکاروں کو آزمانے میں کوئی ہرج نہیں؟ قابل فکر بات یہ ہے کہ حکومتی ارکان بالا اپنے ہی ارکان کی سیڑھیوں کو کھینچنے میں مصروف عمل ہیں۔

آخر ایسا کیوں؟ حکومتی طبقہ شاید رٹے سسٹم پہ پختہ یقین رکھتے ہیں۔لیکن احکام بالا کی وزیروں مشیروں کی فوج سے نظر باہر نکل ہی نہیں پاتی! کفالت پروگرام کے تحت 5لاکھ افراد کا چناؤ،200 ارب کے اس پروگرام کے تحت ہر اس شخص کو بینک اکاؤنٹس،صحت کارڈ سے نوازا جائے گا جو مستحق ہو گا۔60 سے 70 لاکھ خواتین کو سہ ماہی وظیفوں اور اینڈرئٹ سیل کی فراہمی اس پروگرام کی خصوصیات میں سے ایک ہیں۔

پچھلی کفالت کے اندر 8 لاکھ 20 ہزار 165 افراد ایسے نکلے جو سفارشی نکلے!اس میں ڈاکڑ نفیسہ شاہ سے لے کر 20 ویں گریڈ کے آفیسرز بھی شامل تھے۔ 
حکومتی ایوانوں میں غریب کی شناخت کو برقرار رکھنے اور معاشرتی فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے پارلیمنٹ میں عوامی نشستوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔22 ملین بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر تو نہیں پوائنٹ اسکورنگ میں فرسٹ آنے کی دوڑ ہر روز لگائی ضرور جاتی ہے۔

غریب کے چولہے کی نہیں ادرک،پیاز،لہسن اور ہری مرچ،ہلدی جیسی اشیاء کو نعرے میں بدلا ضرور جاتاہے۔چینی اور آٹا جکوٹا جن بن کر کبھی جہانگیر صاحب کی شوگر ملز میں تو کبھی اتفاق شوگرز ملز میں 55 ہزار تھیلے کی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے!اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو بچوں کو آنے والے وقتوں میں چینی آٹا،دالیں،سبزیاں،ہری مرچ،ادرک کرداروں کی شکل میں ہی ملا کریں گے! آلو, ٹماٹر اور پیاز ناپید سیپیشز میں پڑھائے جائیں گے۔

مارکیٹ کا توازن برقرار رکھنا اچھے معاشی نظام کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ان قرض سکیموں کے دور رس نتائج سے بے خبر احکام صرف مہمان بننے کی زبوں میں گم ہیں۔وزیر اعظم پاکستان نے ایک نوید یہ بھی سنائی کہ ہر ماہ 80 ہزار لوگوں کو 5 لاکھ تک قرض دیا جائے گا؟ پاکستان کی کل آبادی تقریباً 24 کروڑ ہے 80 ہزار لوگ ہر ماہ میں قرض لے سکتے ہیں اس طرح ہر سال 9 لاکھ ساٹھ ہزار لوگ قرض سے مستفید ہونگے۔

250 سالوں میں ساری قوم جو کہ 24 کروڑ ہو تو قرض دار ہوگی۔80 ہزار لوگ 5 ہزار لیں تو 40 کروڑ اگر 30 ہزار لیں تو 2.4 ارب روپے ایک مہینے میں دولت خانوں سے نکال لیں گیں۔ 
24 ارب سالانہ کی شرح سے 250 سالوں میں 6000 ارب پاکستانی قوم کے سر ہونگے۔آئی ایم ایف کی 250 سالہ پالیسی قبول کرنے پہ غریب کی غربت کو سلام یا موجودہ حکومت کے امراء کی آمریت کو سلام؟ اسی طرح بے روزگاروں کے لئے بنائی گئی پناہگاہوں کا بوجھ عوام کے سر ٹیکسوں یا فلاحی تنظیم کے زمرے میں ڈال دیا جائے گا! 180 پناہگاہوں میں اوسطاً 50 لوگ قیام و طعام کریں سالانہ 9000 لوگ قیام پذیر ہونگے۔

دوسرے لوازمات درکنار دو وقت کے کھانے کی اوسط اگر 2 سو روپے کی لی جائے تو صرف کھانا 18 لاکھ کا سالانہ ہو گا! کسٹم ڈیوٹی ختم بھی کی جا رہی ہے تو اسپتالوں کے آلات پہ سے تاکہ غریب تو اہسپتال بنانے سے قاصر ٹھہرا میڈیسن 225٪ مہنگی ہو گئی ہے تو روپے کمانے کا اچھا منصوبہ ہے! نواز شریف،چوہدری برادران،گھرکی،شوکت خانم جیسے برانڈز روپے کی گنگا میں ہاتھ دھو سکیں۔بچی کچی کسر ٹرسٹ اہسپتالوں کو ٹیکس چھوٹ سے مل جاتی ہے۔عوام کو فائدہ ہو گا یا کھال اتارنے کا آسان حل وقت ہی بتائے گا؟؟
عارفی۔۔۔ ٹیکس حق ہے اور زکوة فرض ہے۔۔۔فرائض سے بے خبری حقوق کو صلب کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔۔۔۔حق لیا جاتا ہے فرض ادا کیا جاتا ہے۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :