عارفی کی بات

بدھ 1 جنوری 2020

Muhammad Abaid Manj

محمد عبید منج

اگست 2018میں اقتدار کی بھاگ دوڑ عمران خان صاحب نے سنبھالی تو ملکی ذخائر کی بدحالیاں ان کی تقاریروں سے عیاں تھیں۔ساتھ میں ملکی حالات بھی اتنے سازگار نہیں تھے کہ آتے ہی جھٹ پٹ میں تن ساز لے گا۔بارڈد سے لے کر خارجی حالات بھی ابتر تھے۔کشکول خالی منہ چڑھا رہے تھے۔لیکن ایک انسان نے طاقت کے بل بوتے پر ملکی نظام کو بدلنے کے ساتھ ملک کی ذمہ داری کا قلم بھی اپنے سر لے لیا۔

اس کے ساتھ ڈی جے بٹ کے ساونڈ سسٹم تلے (مدینہ )کی طرز کی فلاحی ریاست کا ایک عظیم الشان منصوبہ پیش کیا گیا۔جس میں رات کو موسیقی اور دن کو ترامیمی انداز کی بیان بازی کی جاتی رہی۔سب سے بڑا نعرہ دو نہیں ایک پاکستان کا خواب ،قانون سب کے لیے ایک ہو گا۔میرے پاس سب سے بہترین ٹیم ہے جو ملک جو 100 دنوں میں راہ راست پہ لے آئے گی وقت چھ مہینے میں بدلا اب تین سے پانچ سال صرف سیدھا کرنے میں لگ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

لوگ تومیرے پاس آ کربولتے ہیں خان صاحب آپ آئیں سہی ہم کریں گے قوم کی خدمت۔۔لیکن سب وعدے ریت کی دیوار کی طرح بکھرنے لگے۔معاملات اتنے بکھیر لئے کہ وقت کی نزاکت کو بھانپے بنا ہی عدالتی نظام میں پاؤں رکھ لئے۔کرپشن کے خلاف اٹھائی گئی آواز اور مگرمچھوں کے الفاظ شاید خان صاحب کو بار بار مجبور کر رہے تھے کہ عدالتوں کے دروازوں پہ بھی بھیڑ دیکھنے کو ملے۔

نوازشریف کے کیس اور پیشگیوں پہ جشن منانے کا ایک اور موقع لیڈر کے ہاتھ آیا۔تو پیش پیش زرداری صاحب بھی نواز شریف صاحب کے پیچھے ہو لئے۔نیب کی بروقت کاروائیوں نے عوام کی نگاہیں عدالت اور میڈیا پہ ایسی مرکوز کی کہ سوائے اے آر وائی کے سب چینلز والے اپنے ملازموں کو فارغ کرنے پہ تل گئے۔مریم ،شہباز،حمزہ،فریال،مفتاح اور رانا صاحب کے کیسز کی ریٹنگ وزیروں مشیروں کے سر پہ ہی اٹکی ہوئی تھی۔

عدالت کے پیروکار آخر عدالت والوں کو ہی دماغی کمزور اور بیمار ثابت کرنے پہ مجبور ہو گئے۔اداروں کی دیواروں کو پختہ کرنے کی بجائے سوارخ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش نے زبانوں پہ قفل لگا دئیے۔مشرف صاحب کی سزا نے یکسر ہی کایا پلٹ دی ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ صرف چند لائنوں میں محصور کر دیا گیا۔جہاں ایک ڈیکٹیٹرر کو سزا ملی وہاں وزیر اعظم کے ترجمانوں نے جج کو دماغی مریض جیسے نازیبا الفاظ سے نوازا۔

کچھ عرصہ پہلے قبائلی علاقہ میں وزیراعظم نے مشرف صاحب کو (دہشتگرد) عناصر  اور ڈاکوؤں چوروں کا رکھوالا۔ملکی ہوائی اڈوں کے ساتھ ڈرون حملوں بگٹی کیس، اسلام آباد میں سینکڑوں دینی طلبا کے شہید کرنے کا سنگین اور گھناؤنے فعل میں مجرم ٹھہرایا تھا۔فیصلے کے بعد ان سے ہمدردیاں وزیروں کی زباں پہ ریاستی اداروں کے درمیاں خلش صرف ایک لفظ (غدار) پہ مبنی تھی۔

عدالت  ثبوتوں اور دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے سناتی ہے۔ضمانتیں کمزور دلائل پہ ملتیں ہیں۔ورنہ ارشد صاحب تو گھر ہی عدالت لگالیتے ہیں۔سب ضمانتوں پہ امانتوں کی رکھوالی کے لئے جا پہنچے اب گوشواروں کی باری ہے۔گوشواروں کے لئے بھی میڈیا سیل ترتیب دیا گیا ہے جس میں شیئر رکھے گئے جو صرف فواد،علی زیدی،آفریدی،فردوس صاحبہ کے ساتھ ساتھ مراد سعید کے شیئر زیادہ ہیں۔

میڈیا سیل نے تو کمال کر دیا کہ ٹاک شو تودرکنار اسمبلی کی کارروائی دیکھنا محال ہو جاتا ہے۔ایسی کامیاب کابینہ جو بائیس کروڑ کی نمائندگی کے لئے بے تاب تھی کہ کیمروں کو دیکھ دیکھ کر گالیاں،بد اخلاق رویوں اور نازیبا گفتگو سے دوسرے ساتھیوں کو نوازتے ہیں اب عوام اپنے مسائل کا حل تلاش کرے یا اس بدتہذیبی اقدار سے جان چھڑوائے۔سال کے آخر پہ صرف عوام کے ہاتھ مہنگائی،تنگ دستی,بدزبانی،مکروفریب،ایک نہیں دو پاکستان،قانون امیر کا قربانی غریب کی،ٹیکسوں کی بھرمار،فیول ایڈجسٹمنٹ،تمسخر اور ادکارئیاں،قرضوں کی معافیاں،بیرونی شجرکاریاں،ائی ایم ایف کی شکر گزاریاں،صحت کے نام پہ بھی بیماریاں،یونیورسٹیاں ہیں بھری پھر بھی بےروزگاریاں،نام کے ہیں ہم مسلم غیروں سے ہیں یاریاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عارفی ڈھونڈیں۔۔۔۔۔قانون خود بنے گے لگائے نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔۔رزق چل کے آئے گا۔۔۔۔۔ بد عنوانی اور بد زبانی گھر کے در و دیوار سے مٹائیں۔۔۔۔۔معاشرے میں جانور کم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔ تعلیم سے زیادہ معشیت کی فروانی ہو گی تو نسلوں کی تربیت کے لئے والدین کے پاس وقت ہو گا ورنہ حماد اظہر کے بقول"اندھے جج اور بے زبان حکمران " مسلط ہونگے۔ایک مہنگائی کی بوتل کا ڈھکن بند کر دیں کسی سے قرض لینا تو درکنار ادھار بھی بند ہو جائے گا۔۔۔۔۔ذرا عارفی کی بات پہ غور کریں ملک نہیں نسلیں سنور جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :