
جنگل کی مٹی، کمہارکاچاک!
جمعہ 7 دسمبر 2018

محمد اکرم اعوان
(جاری ہے)
ریاستی اداروں میں بیٹھے احباب بھی اس معاملے میں کسی سے کم نہیں، کہاجاسکتاہے کہ حکومت بے شک تحریک انصاف کی ہے لیکن سرکاری مشینری یعنی اداروں میں موجود اکثریت کی وابستگی کم ازکم موجودہ حکومت سے نہیں ۔سابقہ ادوار میں لگائی گئی پنیری(سیاسی وسفارشی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے لوگ) اب قدآور درخت بن چکی ہے۔یہ لوگ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔ جن وجوہات کی بنا پر حکومت کواپنے مطلوبہ ٹارگٹ کے حصول میں دشواریاں پیش آرہی ہیں،ان میں سے بڑی وجہ مذکورہ سرکاری مشینری(بیورکریسی) بھی ہے۔ وزیراعظم عمران جتنی فکرمعاملات کوسلجھانے کی کررہے ہیں،بیوروکریسی اس حوالے سے اس قدرفعال نظرنہیں آرہی۔اس ساری صورت حال کو دیکھا جائے تووطن عزیز کے مفاد میں ہم میں سے ہرکوئی اپنا حصہ ڈالے بغیر عام طورپرصرف حکومت کوہی موردِالزام ٹہراتا نظرآتاہے،جبکہ خود کوبڑی خوبصورتی سے بری الذمہ قراردے کرحکومت وقت کوتمام خرابی اورناکامی پربے جاتنقیدکرنے میں مصروف ہے۔
جائز،مثبت اورتعمیری تنقیدکاحق ریاست کی طرف سے ہرشہری کو حاصل ہے۔حکومت کوبھی چاہیے کہ وہ مثبت اور تعمیری تنقیدجس سے اصلاح ممکن ہو،ایسی تنقید کوخوش دلی سے برداشت کرے اوراسے اپنے لئے مددگاراورمعاون سمجھے ۔مگریہاں تومعاملہ سرے سے بالکل ہی اُلٹ ہے۔ایک دھڑا ایسا ہے جو ہرحکومتی اقدام کی مخالفت کرنا، کارثواب اوراپنا حق سمجھتا ہے، جب کہ دوسرادھڑا حکومت کے کمزور،غلط فیصلوں اورعملی صلاحیتوں کے فقدان کے ذکر پرہی بھڑک اُٹھتاہے۔100دن کیا ہوئے،حکومت اوراپوزیشن دونوں اطراف کے نعروں اوردعووں، الزمات کی بوچھاڑ اورکارناموں کی داستانیں سن کرعوام حیران ہیں۔ اپوزیشن کا توکام ہی مخالفت کرناہے،حکومت میں آنے سے پہلے کی تقریروں میں اسی سے ملتے جلتے الفاظ تحریک انصاف کے راہنما بارباردہرایاکرتے تھے، کہ اپوزیشن کا توکام ہی مخالفت کرناہے۔اب حکمران جماعت کو کیا ہوگیاہے،اپوزیشن کی ہربات پرتلخی اوروہ بھی اس قدرجوآپ کی خدمات کوبھی متائثرکردے،اس قدرکڑواہٹ سے پرہیزکرنا ہی بہترہے۔
شیخ سعدی رحمةاللہ علیہ کی ایک حکایت ہے۔ "ایک ہنس مکھ اورخوش اخلاق آدمی شہدکاکاروبارکرتا تھا،لوگ اُس کی خوش مزاجی اورمیٹھی باتوں پرایسے فریفتہ تھے کہ اس کا شہدہاتھوں ہاتھ بک جاتاتھا۔یہاں تک کہ وہ زہربھی اُٹھا لاتاتولوگ اُس کوشہدسمجھ کرکھاجاتے۔ایک بدمزاج آدمی اس کے کاروبارکی ترقی سے جلتاتھا۔اس نے سوچا کہ اس کے شہدمیں کونساسرخاب کا پر لگا ہے ۔ چلو ہم بھی یہی دھنداشروع کرتے ہیں۔ چناچہ اس نے بھی شہدکا کاروبارشروع کردیا۔لیکن اس کی ترش روئی کودیکھ کرلوگ نزدیک بھی نہ بھٹکتے تھے۔سارادن گلی کوچوں میں ہانک لگاتالیکن ایک گاہک بھی نہ آیا۔رات کوتھک ہارکرخالی ہاتھ گھرگیااوربیوی سے کہنے لگا،میرے شہدمیں معلوم نہیں کیا خرابی ہے کہ کوئی خریدتا ہی نہیں۔بیوی نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔تلخ مزاج آدمی کا شہدبھی تلخ ہوجاتاہے"۔
بات ہورہی تھی اپوزیشن کی جانب سے تنقیدپر حکومتی وزراء کے شدیدرد ِعمل اورحکومتی کارناموں کی قصیدہ گوئی کی۔ عوام کی خدمت کرنا آسان نہیں ،ملک و قوم کی خدمت کرکے جتانا یا اس پراترانا،کس بات کا؟ یہ کوئی احسان نہیں ، ہرجماعت عوامی خدمت کے نعرہ اورمنشورکے ساتھ عوام کی ہمدردیاں اورووٹ لے کراقتدارمیں آنے کی کوشش کرتی ہے اورکامیاب ہوکرحکومت میں آنے کے بعدملک و قوم کی خدمت فرض ہے اورفرض کی ادائیگی پراحسان کس بات کا؟عمل اورجدوجہد مسلسل سے بات بنے گی۔پرانے وقتوں کی ایک بدعت کے تحت لوگ مٹی کے گھڑے کوپاک کرنے کے لئے خودساختہ چھومنترکرتے ۔ اس کا طریقہ کاریہ ہوتاکہ گھڑے میں پانی ڈال کر، جنگل کی مٹی ،کمہار کا چاک ۔۔۔ محمد کے کلمہ سے ہوجا پاک۔پڑھا جاتااورپھرپانی باہرانڈیل دینے سے گھڑا پاک ہوجاتا۔
حکومت کی کارکردگی کا آغاز ہوچکا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے عوام کے سامنے 100دن کا حساب دے کر ایک اچھی روایت قائم کی ،ورنہ اس سے پہلے تویہاں کی روایت یہ تھی کہ جس سے حساب کی بات کی جاتی،وہ کہتا ،کس بات کا حساب، حساب لینا بھی ہے تو مجھ سے ہی کیوں،پہلے دوسروں سے حساب لے کردکھاو۔اگرچہ حکومت کے موجودہ مختصردوارنیے میں عوام کوکوئی خاص ریلیف نہیں ملا،پھربھی عوام مایوس نہیں۔ مہنگائی کے اس طوفان کو برداشت کرنااورموجودہ صورتحال تسکین واطمینان بخش نہ ہونے کے باوجود خاموشی، ایک لحاظ سے عوام کاوزیراعظم عمران خان سے کسی حدتک اظہار ِ اعتماد ہے ، دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باامرمجبوری قوم عمران خان کوکچھ مزیدمہلت دینے پرآمادہ نظرآتی ہے۔
لہذٰاحکومت پربے جاتنقیدکرنے والے تمام احباب اور ایسے صحافیوں سے گزارش ہے کہ"میں نے دیکھا،میں نے سنا،مجھے کسی نے بتایا،میری اہم سیاسی شخصیت سے بات ہوئی،مجھے اپوزیشن کے اہم راہنمانے بتایا،نہ کوئی تحقیق،نہ محنت،بس عوام کے سامنے جھوٹ بول کراورسنی سنائی آگے پھینک کر،قوم کوگمراہ اورمایوسی کاشکار بنانے کی بجائے صبروتحمل کا مظاہرہ کریں،آپ بھی حکومت کوکچھ مہلت دیں۔اس کیساتھ ساتھ تحریک انصاف کے وزراء،راہنماوں اورکارکنوں سے بھی التجاہے،اپنے منہ میاں مٹھونہ بنیں،پاکی داماں کی حکایتیں سنانے اورپاپولرازم کی غلط فہمی کا شکار ہوکر ،جنگل کی مٹی ،کمہار کا چاک ۔۔۔ محمد کے کلمہ سے ہوجا پاک، پڑھ کر چھومنترسے پاک ہونے کی بجائے پرفارم کریں۔مان لیا، حکومت نے اب تک جوکیا،اچھاکیا،مگرمسائل اس سے کہیں زیادہ کاتقاضاکرتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اکرم اعوان کے کالمز
-
آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان !
منگل 28 جنوری 2020
-
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں!
جمعرات 23 جنوری 2020
-
وحشی معاشرہ!
بدھ 15 جنوری 2020
-
بادشاہ رعیت سے ہی تاجدارہوتا ہے!
بدھ 8 جنوری 2020
-
اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !
بدھ 1 جنوری 2020
-
ہمارا مسئلہ کیا ہے !
جمعرات 26 دسمبر 2019
-
حکمران اورعوام
جمعرات 12 دسمبر 2019
-
ہمارے تعلیمی مسائل اورسرکاری و نجی تعلیمی ادارے
جمعرات 5 دسمبر 2019
محمد اکرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.